سی پی آئی سکریٹری نارائنا سے مصالحت کی خواہش ‘ کانگریس چیف منسٹر کا عہدہ چھوڑنے تیار نہیں
حیدرآباد۔/3اپریل، ( سیاست نیوز) کانگریس سے کسی بھی مفاہمت سے انکار کرنے والی ٹی آر ایس کو اب تلنگانہ میں اپنی طاقت کی حقیقت کا اندازہ ہونے لگا ہے۔ حالیہ اوپینین پولس اور ورنگل میں تلگودیشم کے ’ پرجا گرجنا ‘ اور کھمم میں جگن موہن ریڈی کے جلسہ عام کو دیکھتے ہوئے ٹی آر ایس قیادت کو محسوس ہونے لگا ہے کہ تنہا مقابلہ کی صورت میں اقتدار کا حصول ممکن نہیں لہذا کانگریس سے مفاہمت کی کوششوں کا دوبارہ آغاز کردیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ کئی علاقوں میں پارٹی کا موقف کمزور ہونے سے متعلق اطلاعات کو دیکھتے ہوئے ٹی آر ایس قیادت مرکزی وزیر اے کے انٹونی سے ربط میں ہیں تاکہ مفاہمت کے مسئلہ پر مذاکرات کا احیاء کیا جاسکے۔ صدر ٹی آر ایس چندر شیکھر راؤ نے ایک سے زائد مرتبہ عوامی جلسوں میں کانگریس سے مفاہمت کے امکانات کو سرے سے خارج کردیا تھا لیکن اوپینین پولس کے نتائج اور دیگر جماعتوں کے مظاہرے کو دیکھنے کے بعد ٹی آر ایس قائدین زمینی حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور دکھائی دے رہے ہیں۔ اگرچہ کانگریس نے بھی تنہا مقابلہ کا اعلان کیا تاہم اس نے مفاہمت کے امکانات کو کھلا رکھا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ کانگریس قائدین نے مفاہمت کے سلسلہ میں بات چیت کیلئے ٹی آر ایس کو 48گھنٹوں کا وقت دیا ہے۔ چونکہ چندر شیکھر راؤ اپنے بیانات کے سبب راست طور پر مذاکرات کیلئے کانگریس سے رجوع ہونے کے موقف میں نہیں لہذا بتایا جاتا ہے کہ پارٹی نے اس سلسلہ میں سی پی آئی ریاستی سکریٹری ڈاکٹر نارائنا سے مدد طلب کی ہے۔ ان سے خواہش کی گئی کہ وہ دونوں پارٹیوں کے درمیان مصالحت کار کا رول ادا کریں۔ بتایا جاتا ہے کہ ٹی آر ایس نے مفاہمت کی صورت میں لوک سبھا کی 6اور اسمبلی کی 60نشستوں کا مطالبہ کیا ہے لیکن کانگریس کے تلنگانہ قائدین اس کیلئے تیار نہیں۔ ٹی آر ایس چیف منسٹر کا عہدہ یا پھر اسمبلی کی زائد نشستوں کی مانگ کررہی ہے لیکن کانگریس دونوں شرائط کو قبول کرنے تیار نہیں۔ تلنگانہ کے کانگریس قائدین کی اکثریت مفاہمت کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مفاہمت کی صورت میں کئی قائدین پارٹی ٹکٹ سے محروم ہوجائیں گے۔ کئی لوک سبھا حلقوں میں ٹی آر ایس کو مضبوط امیدواروں کی تلاش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دوبارہ کانگریس سے انتخابی مفاہمت کیلئے کوشاں ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ دونوں پارٹیوں کی جانب سے امیدواروں کی فہرست کی اجرائی میں تاخیر کی اہم وجہ ٹی آر ایس کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش ہے۔ ابتداء میں تو ٹی آر ایس نے پرجوش انداز میں تنہا مقابلہ کا اعلان کردیا لیکن اب اسے کسی مضبوط حلیف کی تلاش ہے کیونکہ اوپینین پول کے مطابق تلنگانہ میں معلق اسمبلی وجود میں آئے گی۔ اوپینین پول میں تلگودیشم اور وائی ایس آر کانگریس کی طاقت کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ٹی آر ایس نے بی جے پی سے مفاہمت کی بھی کوشش کی اور اپنے دو قائدین جتیندر ریڈی اور ونود کمار کو نئی دہلی روانہ کیا تاہم بی جے پی کی تلگودیشم سے مفاہمت کی بات چیت کے سبب بی جے پی نے اس تجویز کو قبول نہیں کیا۔ لہذا ٹی آر ایس کے پاس کانگریس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں بچا۔