ہم نہ ہوں گے تو کسی اور کے چرچے ہوں گے
خلقتِ شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
ٹی آر ایس ۔ کانگریس کا باہم چیلنج
تلنگانہ میں حکمران پارٹی ٹی آر ایس اور اپوزیشن کانگریس کے درمیان عاجلانہ انتخابات کے دعویٰ کو لے کر بحث چل رہی ہے چیلنج پیش کیا جارہا ہے ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے بیان دیا تھا کہ وہ ریاست میں عاجلانہ انتخابات کے لیے تیار ہیں ۔ اگر کانگریس میں ہمت ہو تو وہ مقابلہ کر کے دیکھ لے ۔ دوسری جانب کانگریس نے کے سی آر کے سامنے بھی یہی سوال رکھا ہے کہ اگر کے سی آر کو اپنی قابلیت اور صلاحیت پر اعتماد ہے تو وہ انتخابات کروالیں ۔ کانگریس ہر محاذ پر ہر طرح کے مقابلہ کا سامنا کرنے تیار ہے ۔ دونوں پارٹیاں ایک دوسرے سے انتخابی قسمت آزمانا چاہتی ہیں ۔ سیاسی پارٹیوں کو انتخابات کے موسم میں ایک دوسرے کو آپس کی لڑائیاں ، جھگڑے ، بیان بازی کے ذریعہ نیچا دکھانے کی کوشش کرتی دیکھا جانا ہے ۔ سیاسی میدان کے آپس میں منقسم ہونے والے گروپ دل بدلی کے ذریعہ یہاں سے وہاں ، وہاں سے یہاں چھلانگ لگاتے رہتے ہیں ۔ عوام الناس کو ان کی حرکتوں یا چال بازیوں سے خوش نہیں ہوتی ۔ عوام کی پسند اور مرضی کا خیال کون رکھے گا ۔ یہ بہت بڑا سوال ہوتا ہے لوگ کس حد تک کس پارٹی کی طرفداری کرتے ہیں یہ انتخابی نتائج کے دن ہی پتہ چلتا ہے ۔ اصل معرکہ تو اس وقت شروع ہوگا جب انتخابی عمل شروع ہوگا ۔ اس وقت تلنگانہ کا سیاسی ماحول موافق ٹی آر ایس دکھائی دیتا ہے کیوں کہ حال ہی میں کمپٹرولر اینڈ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کے مطابق تلنگانہ میں پیداوار کی شرح دیگر ریاستوں سے نمایاں طور پر بہتر ہے ۔ کے سی آر کے لیے یہ رپورٹ سیاسی وزن بڑھانے میں مدد کرے گی ۔ اپوزیشن کی حیثیت سے کانگریس کو ریاست کی ترقی کی حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرنی چاہئے ۔ کیوں کہ اس کی موجودگی کی وجہ سے ہی حکومت کو موافق عوام کام کرنے کی کوشش کرنی پڑی ہے ۔ اگر کانگریس کے رویہ میں تلنگانہ میں اپوزیشن نہ ہوتی تو پھر تلنگانہ کی ترقی اور پیداواری شرح میں اضافہ کے تعلق سے قومی سطح پر رائے مختلف ہوتی ۔ بلا شبہ تلنگانہ ریاست نے اپنی نو خیزی کے باوجود دیگر ریاستوں پر سبقت حاصل کرلی ہے ۔ اگر یہ حقیقت ہے تو پھر کے سی آر کو آئندہ انتخابات میں کامیاب ہونے کے اعتماد پیدا کرلینے سے کوئی روک نہیں سکتا ۔ کے سی آر نے اپنے طور پر بھی ریاست تلنگانہ کی ترقی اور عوام کی رائے معلوم کرنے کا سروے کروایا ہے ۔ اس سروے کے مطابق اگر عام انتخابات ہوتے ہیں تو ٹی آر ایس آسانی سے 119 رکنی اسمبلی میں 100 نشستوں سے زائد پر کامیابی حاصل کرلے گی ۔ 2014 کے اسمبلی انتحابات میں ٹی آر ایس نے 63 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور کانگریس 26 نشستوں کے ساتھ دوسرے مقام پر تھی ۔ تلنگانہ کے عوام ڈسپلن پسند اور پابند قانون ہیں وہ اپنے حکمرانوں کو کھلا موقع دیتے ہیں کہ وہ ان کے حق میں زیادہ سے زیادہ مثبت کام انجام دے جس کے عوض میں عوام پورے جوش و خروش سے پارٹی کو منتخب کرتے ہیں ۔ یہ تلنگانہ عوام ہی ہیں جنہوں نے دیانتداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ریاستی ٹیکسوں کی ادائیگی کو یقینی بنایا ۔ سرکاری محکموں جیسے کمرشیل ٹیکس ، اکسائز ، رجسٹریشن اینڈ اسٹامپس کے ذریعہ حکومت کو ٹیکسوں کی مد میں بڑی رقم وصول ہوتی ہے ۔ اس کے بعد ریاست میں پیداوار کی شرح بھی فروغ پاتی ہے ۔ گذشتہ چار سال میں ریاستی پیداواری شرح 17.2 فیصد تک پہونچی ہے جو ملک کی کسی بھی ریاست میں ایسی شرح پیداوار درج نہیں کی گئی ۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے یہی نشاندہی کی ہے کہ ان کی حکومت کی جانب سے شروع کردہ کئی بہبودی اسکیمات اور موافق عوام فیصلوں کے باعث عوام کو ہر شعبہ میں بہتر سرویس حاصل ہوتی ہے ۔ اس میں دورائے نہیں کہ چیف منسٹر کے سی آر نے دیگر ریاستوں کے لیے ریاست تلنگانہ کو مثالی بنانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ ان تمام حقائق کا جائزہ لینے کے بعد کانگریس کو اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ پارٹی کو مستحکم بنانے میں ناکام ہائی کمان کو ریاستی کانگریس کے اندر پیدا ہونے والی نا راضگیوں اور بے چینی کو دور کرنے پر فوری توجہ دینی چاہئے ۔ پارٹی سے حال ہی میں ناگیندر کا استعفیٰ اور ٹی آر ایس میں شمولیت اچھا شگون نہیں ہے۔ لیکن جو ہوا یہ غلط ہوا ۔ آگے اس طرح کے واقعات کے رونما ہونے سے روکنے کے لیے پارٹی کی قومی قیادت کو حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ ریاست کے چیف منسٹر امیدوار کے نام کا اعلان کرنے سے قاصر کانگریس کو پارٹی تنظیمی طورپر مضبوط بنانے کو یقینی بنانا ہوگا ۔