دیپاولی کے بعد حکمت عملی کا اعلان کرنے کا فیصلہ ، مطالبات کی ہنوز عدم یکسوئی سے غم و غصہ
حیدرآباد۔6نومبر(سیاست نیوز) تحریک تلنگانہ کے مرکز مانے جانے والے ادارہ میں تلنگانہ راشٹر سمیتی کو مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور طلبہ تنظیموں کے بعد اب جامعہ عثمانیہ ملازمین کی تنظیموں کے علاوہ ریاست تلنگانہ کی ملازمین کی تنظیموں کی جانب سے تلنگانہ راشٹر سمیتی کے خلاف مجوزہ انتخابات کے دوران مہم چلانے کے سلسلہ میں غور کیا جانے لگا ہے ۔ جامعہ عثمانیہ کنٹراکٹ ملازمین کے علاوہ اساتذہ اور دیگر عملہ کی مختلف تنظیموں نے دیوالی کے بعد اپنی حکمت عملی کا اعلان کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور کہا جا رہاہے کہ جامعہ عثمانیہ کے علاوہ ریاست کی دیگر جامعات کے ملازمین کی تنظیموں کی جانب سے بھی اس فیصلہ کی تائید کی جائے گی کیونکہ تلنگانہ راشٹر سمیتی نے اقتدار حاصل کرنے سے قبل جو وعدے کئے تھے ان میں ایک وعدہ بھی پورا نہیں کیا گیا اور نہ ہی عارضی طور پر خدمات انجام دینے والے ملازمین کے مسائل کی یکسوئی عمل میں لائی گئی ہے جس کے سبب ملازمین سے شدید ناراضگی پائی جاتی ہے۔ ملازمین کی تنظیموں کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے لئے ان کی جو قربانیاں رہی ہیں انہیں دیکھتے ہوئے صدر تلنگانہ راشٹر سمیتی نے 2014 سے قبل ملازمین کے مسائل کے حل کے علاوہ ان کے جائز مطالبات کو پورا کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن حصول تلنگانہ کے بعد چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ان کے مسائل کا جائزہ لینے کی بھی زحمت نہیں کی اور نہ ہی ان کے مسائل کو حل کرنے کے سلسلہ میں کوئی پیشرفت دکھائی بلکہ انہوں نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد سخت سیکیوریٹی کے دوران جامعہ عثمانیہ کی صد سالہ تقریب میں مجبوری کے سبب شرکت کرتے ہوئے اپنے خوف کو واضح کردیا ۔ ملازمین کی تنظیموں کا کہناہے کہ چیف منسٹر تلنگانہ کے جامعہ عثمانیہ کی صد سالہ تقاریب میں صدر جمہوریہ کی آمد کے سبب شرکت کی تھی کیونکہ انہیں پروٹوکول کے باعث شرکت لازمی تھی اس کے علاوہ چیف منسٹر اور ریاست کے دیگر وزراء نے جامعہ عثمانیہ کا رخ کرنے سے بھی خائف رہے۔ مجوزہ اسمبلی انتخابات میں ریاستی جامعات میں خدمات انجام دینے والے ملازمین حکومت کے رویہ کے سبب تلنگانہ راشٹر سمیتی کی مخالفت اور ماحول سازی میں اہم کردار ادا کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں لیکن کہا جا رہا ہے کہ تلنگانہ راشٹر سمیتی کی جانب سے تنظیموں کے سرکردہ قائدین پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی جار ہی ہے تاکہ وہ انتخابات سے قبل مخالف حکومت مہم کے سلسلہ میں اضلاع کے دورے نہ کرسکیں اور طلبہ تنظیموں کو بھی روکنے کے لئے مختلف حربے اختیار کئے جا رہے ہیں۔