ٹی آر ایس کو مرکزی وزارت میں شمولیت کی دعوت

قائدین اور کارکنوں میں تبادلہ خیال ، صدر جمہوریہ کی تائید پر وزیراعظم کی پیشکش
حیدرآباد ۔ 2 ۔ اگست (سیاست نیوز) ملک کے بدلتے سیاسی حالات میں کیا ٹی آر ایس مرکزی وزارت میں شامل ہوگی؟ ٹی آر ایس کے حلقوں میں ان دنوں اس مسئلہ پر قائدین اور کارکنوں کے درمیان تبادلہ خیال جاری ہے اور اس مسئلہ پر پارٹی قائدین کی رائے منقسم دیکھی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی اور بی جے پی کے قومی صدر امیت شاہ نے صدر جمہوریہ کے عہدہ کے لئے رامناتھ کووند کی تائید کے بعد ٹی آر ایس کو مرکزی کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی۔ یوم آزادی تقاریب کے بعد امکان ہے کہ مرکزی کابینہ میں توسیع کی جائے گی جس کیلئے حلیف جماعتوںکو راضی کرنے کا کام جاری ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ انا ڈی ایم کے اور جنتا دل (یو) کے علاوہ ٹی آر ایس کو بھی کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی گئی لیکن چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ابھی تک اس سلسلہ میں کوئی جواب نہیں دیا ہے اور نہ ہی انہوں نے اس مسئلہ پر پارٹی قائدین سے کوئی مشاورت کی۔ اس طرح چیف منسٹر مرکزی کابینہ میں شمولیت کے مسئلہ پر غیر سنجیدہ دکھائی دے رہے ہیں۔ تاہم مختلف قائدین کی رائے ہے کہ ریاست کے مفادات کے پیش نظر اگر این ڈی اے میں شامل ہوئے بغیر ٹی آر ایس مرکزی وزارت میں شامل ہوتی ہے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ صدارتی عہدہ کیلئے رامناتھ کووند کی امیدواری کے اعلان سے چیف منسٹر اور وزیراعظم کے درمیان روابط مستحکم ہوئے ہیں کیونکہ کے سی آر نے کسی دلت قائد کو صدر جمہوریہ منتخب کرنے کی سفارش کی تھی جس کے متعلق وزیراعظم نے رامناتھ کووند کے نام کی سفارش کی اور سب سے پہلے اس کی اطلاع کے سی آر کو دی گئی۔ بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی جنوبی ریاستوں میں اپنے قدم جمانے کیلئے مضبوط حلیفوں کے سہارے تلاش کر رہی ہے۔ آندھراپردیش میں اگرچہ برسر اقتدار تلگو دیشم پارٹی سے مفاہمت ہے، تاہم تلنگانہ میں ٹی آر ایس سے دوستی کو ترجیح دے رہی ہے تاکہ انتخابی مفاہمت کے ذریعہ ریاست میں پارٹی کو مستحکم کیا جاسکے۔ بتایا جاتا ہے کہ حکمت عملی کے طور پر وزیراعظم اور بی جے پی کے صدر نے مرکزی وزارت میں ٹی آر ایس کی شمولیت کا فارمولہ پیش کیا۔ اس سلسلہ میں پارٹی کے بعض ارکان پارلیمنٹ سے غیر رسمی بات چیت کی گئی۔ تاہم ارکان پارلیمنٹ نے اس مسئلہ کو چیف منسٹر سے رجوع کرنے کی ہمت نہیں کی ہے۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس مسئلہ پر بات چیت کر رہے ہیں تاکہ پارٹی میں اتفاق رائے قائم رہے۔ بی جے پی 2019 ء کے عام انتخابات سے قبل ملک بھر میں طاقتور موقف اختیار کرنے کیلئے بڑی ریاستوں میں حلیفوں کی تلاش کر رہی ہے ۔ بہار میں جنتا دل (یو) سے دوبارہ دوستی کے بعد بی جے پی پرامید ہے کہ تلنگانہ میں اسے ٹی آر ایس سے دوستی میں کامیابی حاصل ہوگی۔ بتایا جاتا ہے کہ مجوزہ کابینی توسیع میں آل انڈیا انا ڈی ایم کے ، جنتا دل (یو) اور ٹی آر ایس کو شامل کرنے کا منصوبہ ہے۔ تاہم ٹی آر ایس اور جنتا دل (یو) میں ابھی تک اپنے موقف کا اعلان نہیں کیا۔ ٹی آر ایس قائدین کا ایک گروہ جو پارٹی کے قیام سے وابستہ ہے، ان کا ماننا ہے کہ بی جے پی سے کسی بھی طرح کی مفاہمت تلنگانہ میں سیکولر ووٹ بالخصوص مسلمانوں کی تائید سے محرومی کا سبب بن سکتی ہے ۔ تلنگانہ میں مسلمان بیشتر حلقوں میں فیصلہ کن موقف میں ہے اور کے سی آر نے 2001 ء میں ٹی آر ایس کے قیام کے بعد سے سیکولرازم پر اٹوٹ ایقان کا اظہار کیا ہے ۔ لہذا سینئر قائدین کو یقین ہے کہ ٹی آر ایس کسی بھی صورت میں بی جے پی کے ساتھ نہیں جائے گی ۔ ایسے قائدین جنہوں نے تلگو دیشم یا پھر بی جے پی سے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کی، وہ مرکزی کابینہ میں شمولیت کے حق میں دکھائی دے رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی نے چیف منسٹر کی دختر کویتا اور محبوب نگر کے رکن پارلیمنٹ جتیندر ریڈی کے نام پیش کئے ہیں۔ جتیندر ریڈی سابق میں بی جے پی سے وابستہ رہ چکے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ چیف منسٹر اس مسئلہ پر کھل کر کب اظہار خیال کریں گے۔