ٹی آر ایس کا کانگریس میں انضمام نہیں ہوگا ۔ چندر شیکھر راؤ کا اعلان

آندھرائی جماعتوں کے سوا کسی بھی جماعت سے مفاہمت ممکن ۔ پانچ رکنی کمیٹی کی تشکیل ۔ پولیٹ بیورو ‘ اسٹیٹ کمیٹی ‘ لیجسلیچر پارٹی و پارلیمانی پارٹی اجلاس میںفیصلہ

حیدرآباد ۔ 3 ۔ مارچ (سیاست نیوز) تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے کانگریس میں انضمام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور تلنگانہ عوام اور پارٹی قائدین کی اکثریت نے انضمام کی مخالفت کی ہے۔ ٹی آر ایس کے سربراہ کے چندر شیکھر راؤ نے پارٹی کے پانچ گھنٹے طویل توسیعی اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں یہ اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ آندھرائی جماعتوں کو چھوڑ کر کسی اور جماعت سے انتخابی مفاہمت کی جاسکتی ہے۔ اس سلسلہ میں ڈاکٹر کیشو راو کی قیادت میں پانچ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی۔ پارٹی پولیٹ بیورو ، اسٹیٹ کمیٹی ، لیجسلیچر پارٹی اور پارلیمانی پارٹی کے مشترکہ اجلاس میں متفقہ طور پر قرارداد منظور کرتے ہوئے کانگریس میں انضمام کی مخالفت کی گئی۔ چندر شیکھر راؤ نے کانگریس میں انضمام کی مخالفت کی مختلف وجوہات بیان کی اور کہا کہ تلنگانہ بل کی تیاری کے مرحلہ میں کانگریس پارٹی نے انہیں اعتماد میں نہیں لیا اور نہ ہی بل میں ٹی آر ایس کی جانب سے پیش کردہ ایک بھی مطالبہ کو شامل کیا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ آئندہ انتخابات میں ٹی آر ایس تلنگانہ میں حکومت تشکیل دے گی اور لوک سبھا میں تقریباً 16 نشستوں پر اس کے امیدوار کامیابی حاصل کریں گے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ انتخابی مفاہمت کے سلسلہ میں جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس سے جو پارٹی بھی رجوع ہوگی، مذاکرات کئے جائیں گے۔ کے سی آر نے انتخابی مفاہمت کو کانگریس تک محدود کرنے کی بجائے دیگر جماعتوں سے مفاہمت کے امکانات کھلے رکھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آر ایس پارلیمنٹ میں تلنگانہ بل کی منظوری تک تحریک تھی لیکن اب سیاسی جماعت میں تبدیل ہوچکی ہے۔

اس کا ہر قدم اور حکمت عملی سیاسی ہوگی۔ کے سی آر تلنگانہ کی تعمیر نو میں اہم رول کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ تحریک کی انہوں نے قیادت کی تھی اور تلنگانہ کی تعمیر نو میں بھی وہ اہم رول ادا کریں گے۔ کے سی آر نے بتایا کہ ڈاکٹر کیشو راؤ کی قیادت میں تشکیل دی گئی کمیٹی میں ای راجندر ، این نرسمہا ریڈی ، ونود کمار اور کڈیم سری ہری شامل ہوں گے۔ کانگریس میں انضمام نہ کرنے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ تلنگانہ عوام انضمام کے خلاف ہیں اور انہیں ہزاروں کی تعداد میں ایس ایم ایس ، ٹیلی گرام اور پوسٹ کارڈس تلنگانہ کے مختلف علاقوں سے وصول ہوئے۔ انہوں نے شکایت کی کہ کانگریس ورکنگ کمیٹی نے تلنگانہ کے حق میں فیصلہ سے لیکر بل کی منظوری تک کسی مرحلہ پر ٹی آر ایس کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ بل کی تیاری اور گروپ آف منسٹرس کی سرگرمیوں میں ٹی آر ایس کو شامل نہیں کیا گیا۔ ٹی آر ایس نے تلنگانہ ریاست کے سلسلہ میں جو مطالبات پیش کئے تھے ، ایک بھی مطالبہ کو بل میں شامل نہیں کیا گیا۔ کے سی آر نے کہا کہ جس طرح سیما آندھرا کو خصوصی موقف دیا گیا ہے، انہوں نے تلنگانہ کو بھی خصوصی موقف کا درجہ دینے کی مانگ کی تھی۔ منصوبہ بندی کمیشن نے تلنگانہ کے آٹھ اضلاع کو پسماندہ قرار دیا ہے، لہذا تلنگانہ کو خصوصی موقف دیئے جانے کی گنجائش موجود تھی۔ انہوں نے کہا کہ آندھراپردیش بھون تلنگانہ کے بجائے سیما آندھرا کو دیدیا گیا ، اسکے علاوہ این ٹی پی سی کی جانب سے 500 میگاواٹ برقی کی سربراہی ، پراناہیتا چیوڑلہ پراجکٹ کو قومی پراجکٹ کا درجہ دینے ، گورنر کو لاء اینڈ آرڈر کی ذمہ داری جیسے امور پر ٹی آر ایس مطالبات قبول نہیں کئے گئے ۔ انہوں نے کہا کہ بل کی منظوری کو یقینی بنانے انہوں نے ہر مرحلہ پر صبر و تحمل سے کام لیا۔ کے سی آر نے کہا کہ کانگریس ایک طرف انضمام کی بات کرتی رہی تو دوسری طرف ٹی آر ایس سے خراج ارکان اسمبلی اور پارلیمنٹ کو کانگریس میں شامل کیا گیا۔ انہوں نے مرکزی وزیر جئے رام رمیش کے مخالف ٹی آر ایس بیانات کی مذمت کی اور کہا کہ انہوں نے ٹی آر ایس کو عام آدمی پارٹی کے مماثل قرار دیا۔ جئے رام رمیش نے تلنگانہ جے اے سی قائدین کو ٹی آر ایس سے دور کرنے کانگریس سے جے اے سی قائدین کو الیکشن ٹکٹ کا پیشکش کیا ۔ انہوں نے کہا کہ صدر جمہوریہ کی جانب سے تلنگانہ بل کی منظوری کے چند گھنٹے بعد ہی کھمم ضلع کے 7 منڈلوں کو سیما آندھرا میں شامل کیا گیا ہے۔

مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ غیر جمہوری اور غیر دستوری ہے۔ علاقوں کے انضمام کا اختیار حکومت کو نہیں بلکہ پارلیمنٹ کو ہے ۔ اس فیصلہ کے خلاف ٹی آر ایس سپریم کورٹ سے رجوع ہوگی ۔ کے سی آر نے الزام عائد کیا کہ سونیا گاندھی کے قریبی قائدین نے انہیں گمراہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سونیا گاندھی سے ان کی دو مرتبہ ملاقات ہوئی لیکن کبھی انہوں نے انضمام کی بات نہیں کی۔ کے سی آر نے وضاحت کی کہ گزشتہ سال ستمبر میں اے آئی سی سی قائد وائیلار روی نے تلنگانہ مسئلہ پر گفتگوکیلئے مدعو کیا تھا ۔ انہوں نے وضاحت کی تھی کہ اگر 30 ستمبر تک تلنگانہ کے حق میں فیصلہ کیا جاتا ہے تو وہ انضمام کیلئے تیار ہیں لیکن کانگریس نے ایسا نہیں کیا۔ لہذا وہ انضمام کی پیشکش سے منحرف ہوگئے ۔ تلگو دیشم اوو ر چندرا بابو نائیڈو کو آندھرائی قرار دیتے ہوئے کے سی آر نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بل کی پیشکشی کے موقع پر نائیڈو سنٹر حال میں تھے اور بی جے پی قائدین کو بل کی مخالفت پر مجبور کر رہے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں کے سی آر نے کہا کہ مرکز میں آئندہ حکومت مخلوط ہوگی اور اگر کانگریس برسر اقتدار آتی ہے تو ٹی آر ایس ایم پیز حکومت کی تائید کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ جب سیما آندھرا میں ایک سے زائد علاقائی جماعتیں رہ سکتی ہیں تو تلنگانہ میں ٹی آر ایس علاقائی جماعت کے طور پر کیوں نہیں رہ سکتی؟ پریس کانفرنس میں کیشو راؤ ، ای راجندر ، این نرسمہا ریڈی ، ایم جنگنادھم ، وینوگوپال چاری اور مدھو سدن چاری موجود تھے۔