متبادل محاذ کی تشکیل میں ناکامی کے بعد غیر اہم سیاسی جماعتوں کا استعمال
حیدرآباد یکم / نومبر ( سیاست نیوز ) ریاست تلنگانہ میں قائم کردہ عظیم اتحاد مہا کوٹمی سے خوف زدہ ٹی آر ایس اب اس اتحاد کو توڑنے کے حربے استعمال کر رہی ہے ۔ عظیم اتحاد کا متبادل محاذ تشکیل دینے میں ناکامی کے بعد اب عظیم اتحاد کی غیر اہم سیاسی جماعت کو استعمال کیا جارہا ہے ۔ اتحاد میں نشستوں کی تقسیم کے معاملہ میں ہٹ دھرمی اور کل تک ہند سی نشستوں کی ضد کرنے والی اس نوتشکیل شدہ سیاسی جماعت نے پرانے شہر میں مقابلہ کی پیشکش کی ہے ۔عظم اتحاد کو توڑنے کیلئے کے سی آرنے اپنے قابل بھروسہ و رفیق رکن پارلیمنٹ کو ذمہ داری دی تھی ۔ تاہم تمام کوشش اور چعلسازیاں ناکام ہونے کے بعد اب اسی پلیٹ فارم سے اس بات کی کوشش جاری ہے تاکہ مہا کوٹمی میں بے چینی کی حالت کو پیدا کیا جاسکے ۔ کے سی آر اپنے رفیق رکن پارلیمنٹ کے ساتھ اس کوشش میں تھے کہ عظیم اتحاد کا ایک متبادل بائیں بازو کے ذریعہ قائم کیا جائے تاکہ مخالف حکومت ووٹوں کے ذریعہ کانگریس اور تلگودیشم کو ہونے والے فائدہ کو روکا جاسکے ۔ لیکن اس میں ناکامی کے بعد اب جماعت کے ذریعہ حکمران اور حلیف کا کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ اپوزیشن کے عظیم اتحاد میں شامل غیر اہم سیاسی جماعت کو بھاری مقدار میں فنڈنگ بھی پہونچائی گئی ہے تاکہ پرانے شہر کے اقلیتوں کے غلبہ والے حلقوں سے مقابلہ کروایا جائے ۔ باوثوق ذرائع کے مطابق اس غیر اہم سیاسی جماعت کے صدر نے پرانے شہر سے تین حلقوں پر مقابلہ کرنے کی خواہش ظاہر کی اور اس سیاسی پارٹی کے صدر کا یہ فیصلہ نہیں بلکہ ایک جماعت کے صدر کا منصوبہ مانا جارہا ہے ۔ چنانچہ گذشتہ ایک ہفتہ سے جاری یہ مشقت دو دن قبل رنگ لائی ہے ۔ باور کیا جاتا ہے کہ غیر اہم سیاسی جماعت کی پرانے شہر میں تین نشستوں پر مقابلہ کرنے کا ارادہ کیا ہے یہ بھی کوٹمی کو پھوٹ کا شکار بنانے کی ایک سازش ہے ۔ تاہم ابھی یہ معلوم نہ ہوسکا کہ عظیم اتحاد میں نشستوں کی تقسیم کن بنیادوں پر ادا کس طرح ہونے والی ہے ۔ جماعت کی جانب سے سیاسی پارٹی کو رقم حوالگی کی اطلاعات بھی سیاسی حلقوں میں گشت کر رہی ہے ۔ ٹی آر ایس پارٹی جو مخالفت بغاوت اور داخلی دشواریوں کا شکار ہے ۔ اپنی پارٹی کے مخالف ووٹوں کو تقسیم کرنا چاہتی ہے ۔ چونکہ اپنی اس بات کا بہتر اندازہ ہے کہ مخالف ووٹ اگر عظیم اتحاد کی طرف مائل ہوجاتے ہیں تو عظیم اتحاد کو عظیم کامیابی یقینی ہوجاتی ہے ۔ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ تلنگانہ میں یہ پہلا موقع ہے کہ اپوزیشن کاا تحاد اتنے بہتر اور شفیق رائے سے طئے پارہا ہے ۔ ایک طرف صدر تلگودیشم نشستوں کی قربانی دینے کیلئے بھی اپنے کیڈر کو تیار کرچکے ہیں تاکہ عظیم اتحاد کامیاب ہوسکے اور کانگریس بھی اپنی شرائط میں نرم اور اتحاد میں شامل پارٹیوں کو رائے اور مطالبات کو اہمیت دے رہی ہے ۔ دوسری طرف بائیں بازو کی طاقتور جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا ( سی پی آئی ) جو اس اتحاد کا ایک حصہ ہے وہ بھی مطالبہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اتحاد کو قائم کرنے کے مقصد کو پورا کرنے کیلئے اہمیت دے رہی ہے ۔ جبکہ غیر اہم جماعت کیلئے ذریعہ کوشش کر رہی ہے ۔ لیکن عوامی رحجان اور مفادات اس کے برعکس دیکھائی دے رہے ہیں ۔