حیدرآباد۔/2جولائی، ( سیاست نیوز) تلنگانہ راشٹرا سمیتی ( ٹی آر ایس ) کے صدر کے چندر شیکھر راؤ کی قیادت میں تلنگانہ کی ریاستی حکومت نے عنان اقتدار پر آج اپنا ایک مہینہ مکمل کرلیا۔ کے چندر شیکھر راؤ نے 10وزراء کے ساتھ 2جون کو بحیثیت چیف منسٹر کا حلف لیا تھا۔ انہوں نے عوام سے کئے گئے وعدہ کی تکمیل کرتے ہوئے ایک مسلم لیڈر ( محمود علی ) اور ایک دلت لیڈر ( ٹی راجیا ) کو ڈپٹی چیف منسٹر مقرر کیا۔ علاوہ ازیں کسانوں کے قرض معاف کرنے کے احکام محض چند تکنیکی وجوہات کی بناء پر جاری نہیں کئے جاسکے۔ نئی ریاست تلنگانہ کے نئے چیف منسٹر کو بے شمار مسائل درپیش ہیں لیکن فی الحال ان کی تمام تر توجہ برقی بحران پر قابو پانے اور دیگر انتظامی مسائل پر مرکوز ہے۔ جن میں تلنگانہ اور آندھرا پردیش جیسی دو ریاستوں کے درمیان کرشنا سے پانی کی تقسیم شامل ہے۔
کے سی آر نے مسلم اقلیتی نقطہ نظر سے نمایاں اہمیت کا حامل یہ اعلان بھی کیا کہ درگاہ حضرت حسین شاہ ولیؒ کے تحت ہزاروں ایکر قیمتی موقوفہ اراضی واقع منی کنڈہ سے لانکو ہلز اور دوسروں کی طرف سے کئے گئے مبینہ ناجائز قبضے ختم کئے جائیں گے۔ اس سلسلہ میں سابق حکومت آندھرا پردیش کی طرف سے سپریم کورٹ میں دائر کردہ اس حلف نامہ سے دستبرداری بھی اختیار کی جائے گی جس میں سابق حکومت نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ منی کنڈہ کی مذکورہ اراضیات وقف بورڈ کی جائیداد نہیں ہیں بلکہ اس ( حکومت ) کی ملکیت ہیں۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے شہر حیدرآباد کے تمام بلدی مسائل کی جلد یکسوئی اور شہر میں فرقہ وارانہ امن و ہم آہنگی کی برقراری کو یقینی بنانے کیلئے مختلف اقدامات کئے ہیں لیکن فی الحال چونکہ تلنگانہ میں برقی کا شدید بحران ہے
اور ٹی آر ایس حکومت اس سلسلہ میں مرکز سے تعاون کے علاوہ پڑوسی ریاست چھتیس گڑھ سے برقی خریدی کا فیصلہ کرچکی ہے۔ ٹی آر ایس حکومت نے پولاورم پراجکٹ کے تحت آنے والے کھمم کے 7 منڈلوں کے آندھراپردیش میں انضمام کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا اور وہ مرکز کی جانب سے جاری کردہ آرڈیننس سے دستبرداری کی مانگ کر رہی ہے۔ ایک ماہ کے دوران چندر شیکھر راؤ حکومت نے اگرچہ کوئی اہم کارنامہ انجام نہیں دیا لیکن حکومت کے ایک ماہ کی تکمیل کے دن ٹی آر ایس نے قانون ساز کونسل پر قبضہ کرلیا ہے ۔ کانگریس اور تلگو یشم کے باغی ارکان کی تائید سے ٹی آر ایس میں صدرنشین قانون ساز کونسل کے عہدہ پر اپنے امیدوار کو کامیاب بنایا۔ اس طرح اسمبلی کے ساتھ ساتھ اب کونسل میں بھی ٹی آر ایس کو اکثریت حاصل ہوچکی ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے گزشتہ ایک ماہ کے دوران جو اہم اقدامات کئے ان میں کنٹراکٹ اور آؤٹ سورسنگ ملازمین کی میعاد میں توسیع شامل ہے۔ اس سلسلہ میں حکومت نے احکامات بھی جاری کئے۔ ٹی آر ایس حکومت نے تلنگانہ میں آئی ٹی کمنپیوں کی سرمایہ کاری میں اضافے پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔
مختلف آئی ٹی کمپنیوں کے عہدیداروں سے وزیر آئی ٹی کی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف بڑی صنعتوں کے قیام کے سلسلہ میں بھی حکومت نے مساعی کی اور ٹاٹا کمپنی کی طیاروں کے پرزوں کے متعلق یونٹ کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ۔ چیف منسٹر نے اس یونٹ کا سنگ بنیاد رکھا ۔ حکومت نے تلنگانہ طلباء کیلئے فیس ری ایمبرسمنٹ اسکیم پر عمل آوری کا فیصلہ کیا۔ چیف منسٹر کے حلقہ انتخاب گجویل کی ترقی کیلئے خصوصی بورڈ قائم کیا گیا ہے۔ حکومت نے تلنگانہ تہذیب و ثقافت کے فروغ کیلئے بونال اور بتکماں تہواروں کو سرکاری تہوار کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا۔ ایک ماہ کی مدت کے دوران حکومت کے اہم فیصلوں سرکاری اور وقف اراضیات کے قابضین کے خلاف کارروائی ، تلنگانہ کی توہین کی مرتکب دو ٹی وی چینلس کے خلاف کارروائی ، گروکل ٹرسٹ اراضی پر ناجائز قبضوں کی برخواستگی ، شہر اور اطراف کے کنٹے اور تالابوں کے تحفظ کی مہم ، کسانوں کو خریف سیزن کے لئے کھاد اور بیج کی سربراہی قبائلی علاقوں میں وبائی امراض کی روک تھام کے اقدامات ، حیدرآباد کی ترقی اور حیدرآبادی تہذیب کے تحفظ پر توجہ اور سابق وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کی جینتی سرکاری طورپر منانے جیسے فیصلے شامل ہیں۔
چیف منسٹر کے دفتر کے ذرائع نے بتایا کہ 2 جون کو حلف برداری کے ساتھ ہی چیف منسٹر نے عوامی مسائل پر توجہ مرکوز کردی اور ایک ماہ کے دوران تقریباً 25 سے زائد مختلف محکمہ جات کے جائزہ اجلاس منعقد کرتے ہوئے سرکاری اسکیمات پر عمل آوری کا جائزہ لیا گیا۔ سیاسی سطح پر ایک ماہ کے دوران برسر اقتدار پارٹی کی اہم کامیابی کانگریس اور تلگو دیشم ارکان کی ٹی آر ایس میں شمولیت ہے۔ آپریشن آکرشن کے ذریعہ ٹی آر ایس میں اسمبلی اور کونسل میں اپنا موقف مستحکم کرلیا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق ایک ماہ گزرنے کے بعد چندر شیکھر راؤ حکومت کو جن اہم چیلنجس کا سامنا ہے ، ان میں کسانوں کے قرضہ جات کی معافی ، مسلمانوں اور درجہ فہرست قبائل کو 12 فیصد تحفظات کی فراہمی ، کابینہ میں توسیع ، سرکاری کارپوریشنوں پر تقررات، تلنگانہ کیلئے مرکز سے خصوصی ریاست کے درجہ کا حصول ، مختلف شعبوں میں مرکز سے مناسب فنڈس کا حصول آندھراپردیش کے ساتھ بین ریاستی تنازعات کی یکسوئی ، دونوں ریاستوں میں عہدیداروں اور ملازمین کی تقسیم شامل ہیں۔ سرکاری ملازمین کی جانب سے وظیفہ کی عمر کی حد میں اضافہ کا مطالبہ برسر اقتدار پارٹی کیلئے الجھن کا باعث بنا ہوا ہے۔ آندھراپردیش حکومت نے اپنے ملازمین کیلئے وظیفہ پر سبکدوشی کی عمر 58 سے بڑھاکر 60 کردی ہے۔ اس فیصلہ کے ساتھ ہی تلنگانہ کے ملازمین نے بھی یہ مانگ شروع کردی۔ چندر شیکھر راؤ نے اگرچہ ملازمین کو مثبت فیصلہ کا تیقن دیا لیکن طلباء تنظیموں کا یہ دباؤ ہے کہ اس طرح کے فیصلہ سے نوجوانوں کیلئے روزگار کے موا قع کم ہوجائیں گے۔ پولیس میں اصلاحات کی منظوری اور پولیس کو عصری بنانا ، میٹرو ریل پراجکٹ کے ڈیزائین میں تبدیلی ، تاریخی عمارتوں کے تحفظ کیلئے بعض روٹس پر انڈر گراؤنڈ میٹرو ریل جیسے چیلنجس بھی حکومت کیلئے برقرار ہیں۔ کے سی آر نے 10 وزراء کے علاوہ مختلف شعبوں کے 6 ماہرین کو حکومت کے مشیر کی حیثیت سے مقرر کیا ہے اور سرکاری فیصلوں میں مشیروں کی رائے کو اہمیت دی جارہی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ چیف منسٹر اپنی ایک ماہ کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ تاہم انہوں نے وزراء اور قائدین کو ہدایت دی کہ اس سلسلہ میں تقاریب کے انعقاد سے گریز کریں۔