دارالسلام کی حوالگی سے لیکرایم پی نشست تک کانگریس کے احسانات،کے سی آر سے خفیہ معاہدہ کے تحت کانگریس کی مخالفت کا الزام
حیدرآباد۔/6اپریل، ( سیاست نیوز) کانگریس کے سینئر قائد اور سابق وزیر محمد علی شبیر نے الزام عائد کیا کہ ٹی آر ایس دراصل بی جے پی کی بی ٹیم ہے اور حیدرآباد کی مقامی جماعت مجلس ٹی آر ایس کی بی ٹیم ہے اور یہ دونوں نریندر مودی حکومت کی درپردہ تائید کررہے ہیں۔ محمد علی شبیر نے مجلسی قیادت کی جانب سے تلنگانہ کے مختلف علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے ٹی آر ایس کے حق میں مہم چلانے کو مضحکہ خیز قرار دیا اور کہا کہ شریعت میں مداخلت کرنے والی بی جے پی کو مضبوط کرنے کیلئے کانگریس کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک سے زائد مرتبہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ دونوں پارٹیاں مرکز میں نریندر مودی حکومت کی حلیف ہیں۔ گزشتہ پانچ برسوں میں خود کو سیکولر اور مسلمانوں کا ہمدرد ظاہر کرنے والے کے سی آر نے مرکزی حکومت کے ہر فیصلہ کی تائید کی ہے۔ صدر جمہوریہ، نائب صدر اور راجیہ سبھا کے نائب صدر نشین کے انتخاب میں بی جے پی کی تائید کی گئی حتیٰ کہ جب طلاق ثلاثہ بل پیش کیا گیا تو ٹی آر ایس نے بل کی مخالفت میں ووٹ دینے کے بجائے ایوان سے راہ فرار اختیار کی۔ ایک ایسی پارٹی کی حلیف جماعت مجلس ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ دونوں ایک ہی سکہ کے دو رُخ ہیں۔ مجلس مسلمانوں کے ووٹ سیکولر طاقتوں سے چھین کر فرقہ پرست طاقتوں کی جھولی میں ڈالنا چاہتی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ پارلیمنٹ میں ٹی آر ایس ارکان نے حیدرآباد ایم پی کے اشارہ پر طلاق ثلاثہ بل کی مخالفت سے گریز کیا۔ محمد علی شبیر نے بتایا کہ ٹی آر ایس کے رکن پارلیمنٹ جتیندر ریڈی نے یہ انکشاف کیا تھا کہ کے سی آر نے طلاق ثلاثہ بل کے سلسلہ میں اسد اویسی کی ہدایت پر کام کرنے کا مشورہ دیا جس کے مطابق انہوں نے رائے دہی میں حصہ نہیں لیا اور بل کی مخالفت نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ جتیندر ریڈی جو اب ٹی آر ایس سے استعفی دے کر بی جے پی میں شامل ہوچکے ہیں وہ اس بات کی گواہی دے سکتے ہیں۔ محمد علی شبیر نے کہا کانگریس پر تنقید کا مجلسی قیادت کو کوئی حق نہیں ہے کیونکہ حیدرآباد اسٹیٹ کے انڈین یونین میں انضمام کے بعد سے آج تک مجلس پر کانگریس کے احسانات ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ دارالسلام کی حوالگی ہو یا پھر میڈیکل انجینئرنگ کالجس کی منظوری سے لیکر حیدرآباد لوک سبھا حلقہ کو مجلس کیلئے محفوظ حلقہ بنانے تک کانگریس کے احسانات ہیں جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ محمد علی شبیر نے کہا کہ لوک سبھا حیدرآباد کے تحت تانڈور، وقارآباد اور چیوڑلہ اسمبلی حلقہ جات تھے لیکن ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی نے حلقوں کی نئی حد بندی کے دوران شہر کے مسلم اکثریتی اسمبلی حلقوں کو لوک سبھا حیدرآباد میں شامل کرتے ہوئے مجلس پر احسان کیا لیکن آج تمام احسانات کو بھول کر کانگریس پر تنقید کی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اضلاع میں ٹی آر ایس کیلئے انتخابی مہم چلانے سے قبل صدر مجلس کو بھولنا نہیں چاہیئے کہ 2007 میں جب کے سی آر لوک سبھا حلقہ کریم نگر سے ضمنی انتخابات میں مقابلہ کررہے تھے انہوں نے اسوقت کے چیف منسٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی کے ساتھ کے سی آر کے خلاف مہم چلائی تھی۔ رکن پارلیمنٹ حیدرآباد وائی ایس آر کی گاڑی پر سوار تھے لیکن آج وہ کے سی آر کو مسلمانوں کا ہمدرد اور ملک کا آئندہ وزیر اعظم قرار دے رہے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ آخر کے سی آر سے کیا خفیہ معاہدہ ہوگیاجس کیلئے مسلمانوں کے مفادات کو فراموش کرتے ہوئے اندھی تائید پر اُتر آئے ہیں۔ حیدرآباد اور تلنگانہ کے مسلمان باشعور ہیں اور وہ ان تمام سرگرمیوں کے پس منظر سے بخوبی واقف ہیں۔ انہوں نے لوک سبھا انتخابات میں ٹی آر ایس کی تائید کرنے والی مسلم جماعتوں پر نکتہ چینی کی اورکہا کہ خود کو مذہبی جماعتیں قرار دینے والے شریعت میں مداخلت پر خاموش رہنے والی ٹی آر ایس کی تائید کررہے ہیں۔کیا ان جماعتوں اور تنظیموں کو شریعت کا کوئی پاس و لحاظ نہیں؟۔ اپنے حقیر مفادات کی تکمیل کیلئے ٹی آر ایس کی تائید کا ناعاقبت اندیش فیصلہ کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری عہدوں کے لالچ نے ان نام نہاد مسلم تنظیموں کو ٹی آر ایس کی گود میں بٹھادیا ہے جبکہ کانگریس وہ واحد پارٹی ہے جس نے شریعت میں مداخلت کی نہ صرف کھل کر مخالفت کی بلکہ طلاق ثلاثہ بل کی منظوری کو راجیہ سبھا میں روک دیا۔