تقریبا 90 فیصد باغی مقابلہ سے دور ۔ پارٹی کو آزاد امیدواروں کی تائید حاصل کرنے بھی کوشاں ‘ عہدوں کا لالچ
حیدرآباد 26 جنوری ( سیاست نیوز ) گریٹر حیدرآباد مجلس بلدیہ کے انتخابات میں ریاست کی برسر اقتدار پارٹی ٹی آر ایس معمولی تعداد میں بھی ووٹوں سے محروم ہونے کو تیار نہیںہے ۔ پارٹی کو شائد یہ احساس ہے کہ ان انتخابات میں کامیابی کا فرق صرف چند ہزار بلکہ چند سو ووٹس ہی ہوسکتے ہیں۔ یہ احساس کرتے ہوئے کہ آزاد اور باغی امیدوار پارٹی کے امکانات پر کچھ حد تک اثر انداز ہوسکتے ہیں پارٹی کی جانب سے اس بات کو یقینی بنانے کوئی کسر باقی نہیں رکھی جا رہی ہے کہ یہ امیدوار کسی طرح کا مقابلہ نہ کرسکیں۔ حالانکہ نامزدگیوں سے دستبرداری کی آحری تاریخ ختم ہوچکی ہے تاہم ٹی آر ایس کی قیادت اس بات کو یقینی بنانے جدوجہد کر رہی کہ یہ باغی ووٹوں کی تقسیم کی وجہ نہ بن جائیں۔ ہر وارڈ میں کئی امیدوار ہیں۔ ان میں آزاد بھی ہیں اور تقریبا سبھی جماعتوں کے باغیوں کی بھی خاطر خواہ تعداد موجود ہے ۔ ٹی آر ایس کے ایک لیڈر کا کہنا ہے کہ ہر آزاد یا باغی امیدوار کو اپنے حلقہ میںکچھ اثر رکھتا ہے یا اپنی برادری کا پسندیدہ شخص ہو وہ اپنے ووٹ رکھتا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں پارٹی کے اصل امیدواروں کی کامیابی پر اثر ہوسکتا ہے ۔ اعلی سطح کے ذرائع کے بموجب ٹی آر ایس قائدین ‘ جنہیں ڈویژنوں کی ذمہ داری دی گئی ہے ‘ ایسے امیدواروں کی فہرست تیار کر رہے ہیں جو خاطر خواہ تعداد میں ووٹ حاصل کرسکتے ہیں۔ ایک سینئر لیڈر کا کہنا ہے کہ یہ فہرست پارٹی کے سینئر قائدین کو پیش کی جارہی ہے اور یہ قائدین ان آزاد یا باغی امیدواروں سے رابطہ کرکے ان سے ٹی آر ایس کی تائید کرنے یا علاقہ میں زیادہ مقابلہ نہ کرنے کی خواہش کر رہے ہیں۔ پارٹی کا قیاس ہے کہ یہ آزاد یا باغی امیدوار اپنے ووٹس ٹی آر ایس کے حق میں ہموار کردے تو اسے آسانی سے کامیابی مل سکتی ہے ۔ ذرائع کے بموجب ٹی آر ایس کی حکمت عملی نامزدگیوں سے دستبرداری کے مرحلہ میں بھی یہی رہی اور اب بھی یہی ہے ۔ وزیر آئی ٹی کے ٹی راما راؤ نے پارٹی کے 120 باغی امیدواروں سے خود ملاقات کی ہے اور انہیں دستبرداری کی ترغیب دی ہے ۔ یہ فارمولا کامیاب رہا ہے اور پارٹی کا کہنا ہے کہ اس نے 90 فیصد باغیوں کو مقابلہ سے دستبردار کروالیا ہے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آزاد اور دوسری جماعتوں کے باغیوں کے معاملہ میں بھی یہی حکمت عملی کامیاب ہو رہی ہے ۔ اگر کوئی امیدوار بڑا لیڈر ہے تو ایسے امیدواروں کو پارٹی عہدوں کی پیشکش کی جا رہی ہے اور بعض کو نامزد عہدوں کا لالچ دیا جا رہا ہے ۔