ہندوستان کے تجارتی مفادات کو اگر کوئی بیرونی لیڈر نشانہ بناتا ہے تو اس معاملے میں کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا ہے لیکن امریکہ کے تعلق سے ہندوستان کی مودی حکومت نے اپنا موقف نرم اختیار کیا تو صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کو یہ ریمارک کرنا پڑا کہ ہندوستان اور ملک کے وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ تعلقات بہتر ہیں اور دونوں ہی میری نظر میں عظیم ہیں۔ ٹیکس شرحوں کے مسئلہ پر ہندوستان کو ٹیکسوں کا بادشاہ قرار دینے والے صدر امریکہ نے چند دن میں دوسری مرتبہ ہندوستان کی شرحوں پر تنقید کی ہے۔ امریکہ کے پڑوسی ممالک میکسیکو اور کینیڈا کے ساتھ نئی تجارتی معاملت کے اعلان کے بعد اب ٹرمپ کو ہندوستان کی شرح ٹیکسوں کے بارے میں زیادہ محتاط دیکھا جارہا ہے۔ ٹرمپ نے جاپان، یوروپین یونین، چین کے بعد ہندوستان کو تجارتی معاہدہ کی صف میں قابل مذاکرات متصور کیا ہے تو اس پر ہندوستان کا ردعمل یہ ہونا چاہئے کہ امریکی موٹر سائیکل کمپنی ہیرلے ڈیوڈسن موٹر سائیکلوں کے مسئلہ کو وہ تنازعہ کا شکار ہونے نہیں دے گا۔ ٹرمپ کا الزام ہے کہ جب ہم ہیرلے ڈیوڈسن موٹر سائیکل اور دیگر اشیاء ہندوستان روانہ کرتے ہیں تو وہ ان پر زیادہ سے زیادہ اعلیٰ شرحیں عائد کرتا ہے۔ انہوں نے وزیراعظم مودی سے بھی اس مسئلہ پر بات چیت کی اور ٹیکس شرحوں میں قابل لحاظ کمی بھی کی گئی۔ اس کے باوجود شکایت برقرار ہے تو اس شکایت کے حوالے سے کسی قسم کی تجارتی رکاوٹ نہیں کھڑی کرنی چاہئے۔ ہندوستان ساری دنیا کے ملکوں کے ساتھ تجارتی تعلقات رکھتا ہے تو امریکہ کے ساتھ بھی یہ تعلقات اسی خطوط پر ہوں گے۔ جہاں تک بعض اشیاء پر ٹیکسوں کا سوال ہے اس کے لئے بات چیت کی گنجائش بھی پائی جاتی ہے جس پر امریکی تجارتی نمائندہ رابرٹ لائیٹریز نے بات چیت کی اور مودی حکومت فی الحال صدر امریکہ کو خوش رکھنا چاہتی ہے۔ فری ٹریڈ کا جہاں تک سوال ہے، اس میں دونوں جانب سے اقدام و جوابی اقدام کی گنجائش کا جائزہ لیا جانا چاہئے لیکن صدر ٹرمپ نے تجارتی اُمور میں ہندوستان کو مشتعل کرنے والے رویہ کے ساتھ ہندوستان کو ٹیکسوں کا بادشاہ سے تعبیر کیا حالانکہ انہوں نے 25 ستمبر کو اقوام متحدہ جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستان کی زبردست ستائش کی تھی۔ اقوام متحدہ میں ہندوستان کی تائید میں ان کی تقریر نے ساری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائی تھی لیکن صرف بمشکل ایک ہفتہ کے اندر ہی ہندوستان کو اپنی تنقیدوں کو کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ امریکی اشیاء پر ڈیوٹی میں اضافہ پر صدر امریکہ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہندوستان کو تجارتی معاہدوں سے ہٹ کر کام کرنا پڑے۔ ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات باہمی مفاہمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جاری رکھے جاتے ہیں۔ ہند۔ امریکہ اسٹراٹیجک شراکت داری باہمی اقدار اور باہمی مفادات کے اعلیٰ درجوں پر قائم ہیں۔ یہ تعلقات گہرے ہیں اور جامع سمجھے جاتے ہیں اس لئے عوام سے عوام کے رابطہ میں بھی وسعت پیدا ہورہی ہے۔ اب دفاعی تجارت بھی فروغ پا رہی ہے۔ فوجی تعاون میں بھی دونوں نے مزید پیشرفت کرلی ہے۔ حالیہ 2+2 مذاکرات کے دوران جن بنیادی معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں اس سے توقع پیدا ہوئی تھی۔ یہ متعلقہ فوجی مشقوں کے درمیان مشترکہ مشقوں اور مواصلات کی اجازت ہوگی اور ہندوستان کی خریدی قوت اور امریکہ کی جانب سے فوجی آلات کی ضرورت میں مزید عصری پن آئے گا۔ دفاعی ٹیکنالوجی اور تجارتی اقدام کے ذریعہ کو پروڈکشن اور کو ڈیولپمنٹ پراجیکٹس پر خصوصی توجہ کا احیاء ہوگا، لیکن اب صدر امریکہ نے ٹیکس شرحوں کے معاملے میں ہندوستان پر نکتہ چینی کی ہے تو یہ ایک عارضی واقعہ سمجھا جائے گا یا پھر ہندوستان کو اس تنقید کا جائزہ لینے کی ضرورت محسوس ہوگی کیوں کہ ان دنوں امریکی صدر نہیں چاہتے کہ کوئی بھی ملک امریکہ سے فائدہ حاصل کرے بلکہ امریکہ کو منفعت حاصل کرنے کا حقدار بنایا جائے۔