ٹیکساس میں گستاخانہ حرکت

ہٹے نہ راہِ وفا سے کبھی قدم اپنے
دلِ غریب پہ کتنے ہی امتحاں گزرے
ٹیکساس میں گستاخانہ حرکت
امریکہ اور اس کی مخالف اسلام تنظیمیں مسلمانوں کی مذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچانے کی مہم پر ہیں تو یہ ایک ایسی بھیانک حرکتیں ہیں جس کاانجام تباہی ہی ہوسکتا ہے۔ خود کو مہذب معاشرہ کہنے والے امریکہ میں مخالف اسلام طاقتوں کو محض اظہار خیال کی آزادی کے نام پر کھلی چھوٹ دی گئی ہے تو اس پر فوری ہوش کے ناخن لینے ہوں گے ۔ ٹیکساس میں توہین رسالت کارٹون مقابلہ ایک گھناؤنی اور مذہبی دل آزاری کی کھلم کھلا کوشش ہے ۔ نظم و نسق نے اس طرح کے کارٹون مقابلوں کی اجازت دیکر ایک طرح سے مخالف اسلام تنظیموں کی پشت پناہی کی ہے ۔ امریکی نظم و نسق کی اس حرکت کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔ امریکہ کے اندرونی مسائل ہی بہت ہیں ۔ پہلے اسے اپنے داخلی حالات پر قابو پانے کی فکر کرنی چاہئے نہ کہ مسلمانوں کے جذبات سے کھلواڑ کرنے والی طاقتوں کو آزادی دی جائے ۔ اظہارخیال کی آزادی کو صرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہونچانے تک ہی حق سمجھا جاتا تو ہے یہ رجحان خطرناک ہے۔ ساری دنیا میں دل آزاری کے واقعات اور اس کے ردعمل کے بعد رونما ہونے والی کیفیت کو دیکھتے ہوئے بھی امریکہ اپنے ملک میں ان طاقتوں کی سرپرستی کررہا ہے تو یہ اس کے لئے غیرصحت مندانہ بات ہوگی۔ امریکہ کو ویتنام میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کیلئے صرف اسلام ہی ملا ہے تو وہ پھر ایک بار ویتنام جیسی صورتحال کو دعوت دے رہا ہے ۔ ایک حوالے سے یہ امر باعث تشویش ہے کہ گزشتہ ایک عرصہ سے امریکہ ان طاقتوں کی پشت پناہی کررہا ہے جو اسلام اور مسلمانوں کو تکلیف دینے کیلئے سرگرم ہیں ۔ دل آزاری کرنے والے اپنی تباہی کی تاریخ سے ایک دلیل اور مستعار لے سکتے ہیں تو ایسی طاقتوں کی سوچ کا ہمیشہ خاتمہ ہوا ہے ۔ برائی کی زندگی لمبی نہیں ہوتی ۔ امریکہ برائیوں کو ختم کرنے کے بجائے نفرت پیدا کرنیوالی برائیوں کو جنم دے کر اس کی نشوونما کو ہی اپنی اصل پالیسی سمجھتا ہے تو یہ ساری دنیا کی بھلائی کیلئے ٹھیک نہیں ہے ۔ ساری دنیا میں جو دلخراش اور دگرگوں حالات پیش ہورہے ہیں ۔ اس کی وجہ بعض گوشوں کی من مانی اور انہیں مکمل آزادی دینا ہے۔ چند سال قبل سویڈن کے ایک کارٹونسٹ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا گستاخانہ کارٹون بنایا تھا ۔ یہ کارٹون نہیں تھا گستاخی ، توہین ، اور تمسخر کی آخری حدتھی جس کا کوئی مہذب انساں تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ یہ کارٹون سویڈن کے ایک بڑے اخبار اور پھر سویڈن کے دوسرے اخبارات اور پھر یورپ کے کئی ممالک کے اخبارات میں شائع کیا گیا جس سے سارے عالم اسلام میں احتجاج کی آگ بھڑک اُٹھی ۔ سعودی عرب نے احتجاج کے طورپر سویڈن سے اپنا سفیر واپس طلب کرلیا تھا ۔ بیروت کے مسلمانوں نے غصے میں آکر سویڈن کے قونصل خانہ کی عمارت کو آگ لگادی تھی اس طرح کے ردعمل کے باوجود اسلام دشمن طاقتوں کو دل آزاری کی ہمت دلائی جاتی ہے تو یہ ناپاک عزائم کی عکاسی ہے ۔ ٹیکساس میں مخالف اسلام مہم چلانے والی پامیلا گیلر نے مسلمانوں کے خلاف اپنی زہریلی سوچ کو فروغ دینے کیلئے جو وقت اور طاقت صرف کررہی ہے اس سے انسانیت کو شدید نقصان پہونچ رہا ہے ۔ انسانی حقوق کی علمبرداروں کو اگر پامیلا گیلر یا اس کی طرح شرپسند عناصر کی کارروائیوں میں کوئی برائی دکھائی نہیں دیتی ہے تو پھر وہ مطلب کی فکر رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی سب سے زیادہ قابل احترام ہستی کے گستاخانہ خاکے بنائے جائیں اور دوسرے مذاہب کے پیروؤں کے جذبات کو کچلا جائے تو اس کا ردعمل بھی شدید ہوتا ہے ۔ ٹیکساس میں جس مقام پر گستاخانہ کارٹون کا مقابلہ ہورہا تھا وہاں پر نومسلم امریکی شہری اور ایک سچے مسلمان نے اپنے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا تو پولیس نے اپنی طاقت سے ان دونوں کو گولی مارکر ہلاک کردیا۔ پولیس کا یہ رول امریکی صدر براک اوباما کے نظم و نسق کی کوتاہیوں پر سوال اُٹھاتا ہے ۔ امریکہ میں سیکولر روشن خیال کے دعویدار ، دانشور اور اپنے معاشرے کی خامیوں کو نظرانداز کرنے والے یہ بات اپنے ذہن میں پیوست کرلیں کے گستاخ رسول ؐکو برداشت نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ ناموس رسالت مسلمانوں کے ایماں کا اہم حصہ ہے ۔