تاریخی عمارتوں کے تحفظ کے لیے حکومت کے بلند بانگ اعلانات ، عملی اقدامات ندارد
حیدرآباد۔31جنوری(سیاست نیوز) حکومت تلنگانہ ریاست بالخصوص شہر حیدرآباد میں موجود تاریخی عمارتوں کے تحفظ کے سلسلہ میں سنجیدہ ہونے کے اعلانات کرتی ہے لیکن عملی اعتبار سے اگر شہر کی تاریخی عمارتوں کا جائزہ لیا جائے تو موجودہ حکومت نے شہر کی تاریخی عمارتوں کو نظر انداز کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے اور شہر کی تاریخی عمارتوں کو تباہ ہونے کیلئے چھوڑ دیا گیا ہے۔ لکڑی کا پل پر واقع ٹیپو خان ٹاور کو ایک مرتبہ پھر سے خطرہ لاحق ہو چکا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ شہر کے مرکزی علاقہ میں موجود اس ٹاور کو منہدم ہونے کے لئے چھوڑ دیئے جانے کے باوجود اب تک ٹاؤر باقی رہنے کے سبب خانگی بلڈرس اس ٹاور کو منہدم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ حکومت اور متعلقہ محکمہ کو اس سلسلہ میں متعدد نمائندگیاں کرتے ہوئے اس بات کی درخواست کی جا چکی ہے کہ ٹیپو خان ٹاور کے تحفظ کے اقدامات کئے جائیں اور اس کی تاریخ سے عوام کو واقف کرواتے ہوئے تاریخی عمارتوں کا مشاہدہ کرنے کے خواہشمندوں کو اس ٹاور تک رسائی فراہم کی جائے لیکن شہر کے مرکزی مقام پر موجود اس ٹاور تک رسائی کا انتظام نہ کئے جانے کے سبب یہ ٹاور عوامی توجہ سے محروم رہا ہے لیکن لکڑی کا پل سے گذرنے والے اور خیریت آباد سے لکڑی کا پل آنے والے راہگیروں کی نظریں ضرور اس ٹاور پر پڑتی ہیں لیکن عوام کی بڑی تعداد اس ٹاور کی تاریخی اہمیت سے واقف نہیں ہے ۔ 150سال قبل ٹیپو خان بہادر نے دشمن پر نظر رکھنے کیلئے یہ ٹاؤر تعمیر کروایا تھا اور اس ٹاور کے ذریعہ فتح میدان اور اس کے اطراف و اکناف کے علاقوں پر نظر رکھی جاتی تھی ۔ ٹیپو خان بہادر نے صرف یہ ٹاور تعمیر نہیں کروایا تھا بلکہ شہر حیدرآباد و سلطنت آصفیہ ریاست دکن حیدرآباد میں ان کے تعمیری کارناموں کی طویل فہرست موجود ہے جس میں ٹیپو خان برج اور ٹیپو خان سرائے کے علاوہ ٹیپو خان مسجد افضل گنج وغیرہ شامل ہیں۔ ٹیپو خان سرائے جو کہ اب نامپلی سرائے کے نام سے معروف ہے اور جانا جاتا ہے یہ سرائے کی تعمیر بھی ٹیپو خان بہادر نے کروائی تھی ۔لکڑی کا پل پر موجود ٹیپو خان ٹاور کی نا گفتہ بہ حالت کے باوجود حیدرآباد میٹرو پولیٹین ڈیولپمنٹ اتھاریٹی ‘ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کے علاوہ محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے اختیار کردہ لاپرواہی کو دیکھتے ہوئے علاقہ کے عوام کا کہناہے کہ متعلقہ محکمہ جات کی جانب سے اختیار کردہ رویہ شہر کی تاریخ کو مٹانے کی کوشش کے مترادف ہے اور اس ٹاور کے قریب میں ضلع کلکٹر رنگا ریڈی کا دفتر موجود ہونے کے باوجود بھی اس صورتحال سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس تاریخی ٹاور کو منہدم کرنے کی سازش میں خود سرکاری دفاتر شامل ہیں جو شہر کی تاریخ کو ختم کرنے کی کوشش کرنے والوں کو موقع فراہم کر رہے ہیں۔