ٹھیلہ بنڈیوں کی اشیائے خورد و نوش میں غیر معیاری تیل کا استعمال

امراض شکم لاحق ہونے کا اندیشہ ‘ وقتی بھوک مٹانے کے روزہ اور صحت پر منفی اثرات
حیدرآباد۔ 23 جون (سیاست نیوز) ماہِ رمضان المبارک کے دوران ٹھیلہ بنڈیوں پر ملنے والے دوسے وغیرہ کے استعمال سے اجتناب کیا جانا چاہئے چونکہ ٹھیلہ بنڈیوں پر دستیاب اشیاء خوردونوش میں غیرمعیاری تیل کے استعمال سے مختلف امراض شکم لاحق ہونے لگتے ہیں جس کے اثرات روزہ پر مرتب ہوسکتے ہیں۔ دونوں شہروں میں یہ عام رجحان دیکھا جارہا ہے کہ نوجوان اڈلی دوسہ کے علاوہ میسور بھجی اور وڈا استعمال کرتے ہوئے وقتی طور پر بھوک مٹانے کی کوشش کررہے ہیں جس کے منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ماہرین امراض شکم کا کہنا ہے کہ ایسی غذائیں جوکہ جلد ہضم نہیں ہوتیں، ان کا استعمال صحت کیلئے نقصان دہ ہوتا ہی ہے لیکن ماہِ رمضان المبارک کے دوران جب معدہ کی سرگرمیاں تقریباً مفلوج ہوتی ہیں، اگر ان پر اس طرح کی غذاؤں کا بوجھ عائد کیا جائے تو ایسی صورت میں ہاضمہ کا نظام بگڑ سکتا ہے۔ غیرمعیاری تلن کی اشیاء کے علاوہ اڈلی دوسہ وغیرہ صحت کو متاثر کرنے کے موجب بن سکتے ہیں۔ ماہ مقدس میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ ہر گلی کوچے میں اس طرح کی ٹھیلہ بنڈیاں عام ہوتی جارہی ہیں اور لوگ مقوی غذاؤں کے بجائے ان غذاؤں کو یہ سوچ کر ترجیح دے رہے ہیں ان غذاؤں کا استعمال ہاضمہ کیلئے مفید ثابت ہوگا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے جب ان غذاؤں میں غیرمعیاری تیل کے استعمال کے علاوہ اگر کوئی غیرصحتمند شئے مل جاتی ہے تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ دوسہ اور اڈلی کیلئے ملائے جانے والے آٹے میں اگر کھٹاس پیدا ہوجاتی ہے تو ایسی صورت میں یہ آٹا نقصان دہ بن جاتا ہے اسی طرح تلن کی اشیاء میں جو آٹا استعمال ہوتا ہے ، اس کا بھی محدود استعمال درست ہے جبکہ اضافی استعمال سے ہاضمہ کا نظام بگڑ جاتا ہے۔ سڑکوں پر فروخت کی جانے والی اشیاء کے غیرمعیاری ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود عوام کی جانب سے ان کا استعمال ایسے خوردنوش مراکز کی حوصلہ افزائی خود عوامی صحت میں بگاڑ کا سبب بن رہی ہے۔ اسی لئے یہ ضروری ہے کہ اس طرح کے مراکز خوردونوش جہاں پر غذائی معیار کا خیال نہیں رکھا جاتا ان کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے چونکہ عوامی خاموشی کے سبب یہ عناصر کھلے عام صحت کو بگاڑنے کا موجب بن رہے ہیں۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں اعلیٰ معیاری اڈلی ، دوسہ، وڑا وغیرہ ٹھیلہ بنڈیوں پر بھی دستیاب ہے لیکن غیرمعیاری اشیاء کی فروخت کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھتی