لبرل ڈیموکریٹک پارٹی 57 نشستوں سے 23 نشستوں تک محدود، ملک میں پہلی بار کسی خاتون وزیراعظم کے امکانات
ٹوکیو ۔ 3 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) وزیراعظم جاپان شینزوابے نے آج ان کی پارٹی کی گذشتہ ہفتہ کے اواخر میں اسمبلی انتخابات میں کراری شکست پر نہ صرف افسوس بلکہ حیرت کا بھی اظہارکیا۔ اس کراری شکست پر انہیں ہر جانب سے تنقیدوں کا سامنا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کے قائد کیلئے یہ ایک شرمناک صورتحال ہی ہوسکتی ہے کہ اس کی پارٹی کو اہم الیکشن میں زائد از نصف نشستوں کی تعداد سے ہاتھ دھونا پڑجائے۔ یاد رہیکہ چین میں منعقدہ اسمبلی انتخابات کو اس وقت ’’نئے سیاسی منظرنامہ‘‘ کا پیش خیمہ تصور کیا جارہا ہے کیونکہ اس طرح شینزوابے کے تئیں عوامی جذبات کی بھی بخوبی عکاسی ہوگئی ہے کیونکہ حالیہ دنوں میں شینزوابے متعدد اسکینڈلس میں ملوث پائے گئے جس نے ان کی مقبولیت پر بھی منفی اثرات مرتب کئے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی دلچسپ ہوگا کہ جاپان کی سابق ٹی وی اینکر یوریکو کوئیکے جو ایک خاتون ہیں، نئی سیاسی جماعت تشکیل دی اور گذشتہ سال ہی واضح اکثریت حاصل کرتے ہوئے ٹوکیو کی گورنر بننے میں کامیابی حاصل کی۔ یوریکو نے اپنی اسی کامیابی اور مقبولیت سے مزید استفادہ کرتے ہوئے نئی پارٹی تشکیل دینے کے باوجود عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کرتے ہوئے 127 نشستوں کے منجملہ 49 نشستوں پر قبضہ کرلیا اور اس طرح کسی بھی پارٹی کے مقابلے یوریکوکو واضح اکثریت حاصل ہے۔ دوسری طرف شینزوابے نے پیر کے روز اخباری نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے اس شکست پر افسوس اور حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اس شکست کو نہایت سنجیدگی سے لیا ہے۔ نتائج ہماری لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) کی توقعات کے برعکس سامنے آئے کیونکہ 57 نشستوں سے صرف 23 نشستوں تک محدود رہ جانا سیاسی طورپر تشویشناک بات ہے۔ شینزوابے نے کہا کہ شاید ان کی پارٹی نے ملک میں اصلاحات و ترقیات کے ایسے کام نہیں کئے جو عوام کی توقعات پر پورے اترے ہوں۔ ہماری کوشش ہوگی کہ ہم مزید ترقیات کی جانب توجہ دیں اور ساتھ ہی ساتھ پارٹی کو ایک نیا رخ دینے کی بھی کوشش کریں گے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہیکہ شینزوابے نے 2012ء کے اواخر میں جاپان کے وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تھا جس سے ملک کی معیشت کو استحکام حاصل ہونے کی پوری توقعات پیدا ہو گئی تھی۔ تاہم 62 سالہ ابے کوحالیہ دنوں میں کافی تنقیدوں اور الزامات کا سامنا کرنا پڑا، جن میں سے ایک بڑی تجارتی سودے بازی میں اپنے دوست کی مبینہ طو رپر مدد کا الز ام اہمیت کا حامل رہا جس کی شینزوابے نے تردید کی ہے۔ ایک اور تنازعہ اس وقت پیدا ہوا جب ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ ان کے ایک اسکول کے متنازعہ ڈائرکٹر سے بھی روابط تھے، جنہوں نے سرکاری اراضیات انتہائی رعایتی داموں میں خریدی اور شینزوابے کی ا ہلیہ کو بعدازاں اس اسکول کا اعزازی پرنسپل بھی مقرر کیا گیا۔ دوسری طرف اگر 64 سالہ کوئیکے کے موقف کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلے گا کہ موصوفہ سابق رکن پارلیمنٹ اور وزیردفاع رہ چکی ہیں لیکن سیاست سے انہوں نے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی۔ تاہم ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے انہوں نے قومی سیاست میں ایک بار پھر واپسی کا ارادہ کیا اور جس طرح کامیابیاں ان کے قدم چوم رہی ہیں اس سے یہ اندازے لگائے جارہے ہیں کہ موصوفہ جاپان کی آئندہ پہلی خاتون وزیراعظم بن سکتی ہیں۔ انتخابات میں ان کی ٹومن فرسٹ پارٹی نے اپنی نشستوں میں جو اضافہ کیا ہے اس سے کوئیکے کے سیاسی موقف کو استحکام حاصل ہوا۔ کوئیکے نے اپنی پارٹی میں چھ آزاد امیدواروں کو بھی شامل کرلیا ہے اور اس طرح نشستوں کی جملہ تعداد 55 ہوگئی ہے۔ کومیٹو نامی ایک تیسری پارٹی بھی ہے جس کی قیادت ایک بدھسٹ گروپ کرتا ہے۔ اس پارٹی نے یوں تو عرصہ دراز سے قومی سیاست میں شینزوابے کا ساتھ دیا لیکن ٹوکیو میں منعقدہ انتخابات میں اس نے مقامی پارٹی کی تائید کی۔