ٹوئیٹر : کردار کا قتل

عکس خیال ہوتا ہے انداز گفتگو
انساں کو جانچ لیتے ہیں طرز کلام سے
ٹوئیٹر : کردار کا قتل
مغربی ملکوں اور ان کے اداروں کی جانب سے چلائے جانے والی نٹ ورکنگ عالم اسلام یا دیگر ملکوں کے اندر ایسی جاسوسی کررہی ہے کہ اس سے آنے والے دنوں میں کئی منفی نتائج برآمد ہوں گے۔ ترکی نے اپنے ملک میں سوشیل میڈیا پر پابندی لگانے کا جائزہ لیا ہے۔ حکومت ترکی کا الزام ہیکہ میونسپل میڈیا خاص کو ٹوئیٹر ’’ایک منظم طریقہ سے کردار کا قتل‘‘ کرنے والا نٹ ورک ہے۔ وزیراعظم ترکی رجب طیب اردغان کی حکومت کے خلاف ریکارڈ کی گئی رشوت کو عام کرنے والی ایک تجویز کو پیش کرنے کے بعد ٹوئیٹر کو بند کرنے کی جانب توجہ دی گئی۔ حکومت ترکی میں رشوت کے عام ہونے سے متعلق خبروں کو ٹوئیٹر کے ذریعہ پھیلایا جارہا ہے، جس سے حکومت کی ساکھ متاثر ہورہی ہے۔ دراصل یہ مبینہ کارروائی مغربی طاقتوں کی ایک سازش کہی جاری ہے کیونکہ ترکی نے اسرائیل کی جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی ہے تو مغربی ایشاء ترکی کی رجب طیب اردغان حکومت کا تختہ الٹنے کی ترکیبیں تلاش کررہی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہیکہ ترکی نے مخالف اسرائیل پالیسیاں اختیار کی ہیں تو امریکہ اور سی آئی اے کی جانب سے ہر کوشش کی جارہی ہے کہ وزیراعظم ترکی کو برطرف کردیا جائے یا انہیں بدنام کردیا جائے۔ ٹوئیٹر پر سے صرف ان ویڈیوز کو ہٹادیا گیا ہے جو مغربی دنیا کی پالیسیوں کے خلاف لوڈ کی گئی تھیں اور ساری دنیا میں موافق مغرب اظہارخیال کی آزادی کی دوہری پالیسی کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔ سوشیل میڈیا ٹوئیٹر کا استعمال خاص مقصد سے ہورہا ہے تو اس کی روک تھام کیلئے اگر کوئی ملک قدم اٹھاتا ہے تو اس پر اظہارخیال آزادی کو سلب کرنے کا الزام عائد ہوتا ہے۔ وزیراعظم ترکی پر بھی الزام عائد کیا جارہا ہیکہ اس جدید دور میں ہٹلرکا رول ادا کررہے ہیں۔ بلاشبہ ترکی میں ایک جمہوری حکومت کام کررہی ہے۔

اس کی یہ ذمہ داری ہیکہ وہ اپنے معاشرے کو اخلاقی و دینی حدود کا پابند بنانے اگر ترکی میں سوشیل میڈیا کے ذریعہ بدگمانیاں پیدا کی جارہی ہیں تو یہ کردارکشی کے مترادف ہے۔ عوام کو تمام معلومات تک رسائی حاصل کرنے کا حق ہے مگر ان معلومات کو گمراہ کن طریقہ سے پھیلایا جائے تو یہ واقعی کردارکشی اور کردار کا قتل قرار پائے گا۔ حکومت ترکی نے اپنے ملک میں ٹوئیٹر کو بند کرنے کی گوگل سے درخواست کی تھی لیکن اس نے درخواست کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ اس کا نٹ ورک اور آفس سرزمین ترکی سے کام نہیں کررہا ہے۔ ایسے میں حکومت ترکی کیلئے یہ مشکل ہوجاتا ہیکہ وہ سوشیل میڈیا پر پابندی عائد کرے۔ سوشیل میڈیا پر بھی تمام امکانی قواعد و شرائط کا اطلاق ہونا چاہئے۔ ٹوئیٹر یا سوشیل میڈیا کو نیو ورلڈ آرڈر (NWO) مانا جاتا ہے۔ اس لئے کوئی بھی حکومت اس پر پابندی عائد نہیں کرسکتی جو نیو ورلڈ آرڈر کا حصہ ہے تو پھر انسانی حقوق کے تناظر میں اس نیو ورلڈ آرڈر کو کردارکشی کی ذمہ داری کس نے دی ہے؟ سوشیل میڈیا کو بعض طاقتیں طبقات میں نفرت پھیلانے کیلئے بھی استعمال کررہی ہیں۔ اس تلخ سچائی کو پس پشت ڈال کر سوشیل میڈیا کو انسانی حقوق، کردار و اقدار کو پامال کرنے کی کھلی چھوٹ دی جائے تو پھر خود کو عریاں اور عریانی فحاشی کے زمرے کو عام کرنے کا چلن زور پکڑے گا۔ ساری دنیا میں سائبر قانون کا استعمال بھی مفادات پر مبنی ہونے لگا ہے۔

ٹوئیٹر نے اس پر پابندی کو برداشت نہ کرتے ہوئے حکومت کے خلاف کارروائی کرنے سائبر قانون کے ماہرین کی خدمات حاصل کی ہیں۔ وزیراعظم رجب طیب اردغان کو ترکی پر اپنے اقتدار کے 11 سال کے بعد اس وقت سب سے بڑے چیلنجس کا سامنا ہے ٹوئیٹر پر پابندی کے بعد ان پر ہر گوشے سے ہونے والی تنقیدیں ظاہر کرتی ہیں کہ مغربی طاقتیں ان کی مخالف اسرائیل پالیسی کی سزاء دینے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔ آج کل ساری دنیا میں ہر روز کوئی نہ کوئی چونکا دینے والی پوسٹ سوشیل میڈیا پر نمودار ہوتی ہے۔ اس سے اہل فکر و دانش کو مزید اضطراب میں مبتلاء کردیتی ہے تو کسی کی کردارکشی ہوتی ہے۔ بعض اچھی باتیں بھی ٹیگ کی جاتی ہیں مگر زیادہ تر نفرت اور عداوت کو پھیلنے کیلئے سوشیل میڈیا کا استعمال ہوتا ہے۔ اس خصوص میں امریکہ میں اقئم مائیکرو بلاگنگ سائیٹ کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے اس کے غلط استعمال کو روکنے کیلئے اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔ ان دنوں ساری دنیا میں فیس بک، ٹوئیٹر اور گوگل عام ہوچکے ہیں تو اس کے درست استعمال اور اس کے کردار کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ عوام کی سوچ کا دھارا متعصب یا زہریلے پن کا شکار نہ ہو۔