ٹرمپ ۔ کم جونگ ملاقات پر اب بھی شک و شبہات کے بادل

واشنگٹن ۔ 22 مئی (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جنوبی کوریا کے صدر کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جارہا ہے۔ وائیٹ ہاؤس میں ہونے والی آج یہ ملاقات اس لئے بھی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ 12 جون کو ٹرمپ اور شمالی کوریا کے قائد کم جونگ کی تاریخی ملاقات پر اب بھی شک و شبہات کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ جنوبی کوریا کے صدر مون جے ان کے ساتھ ملاقات اور بات چیت کے بعد یہ بات مزید واضح ہوجائے گی کہ ٹرمپ اور کم جونگ ملاقات کا موقف کیا ہے۔ مون جے ان بھی اسی بات کے لئے کوشاں ہیں کہ امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان کشیدگی بالکل ختم ہوجائے اور شاید اسی لئے وہ ایک ’’سفارتی‘‘ ذمہ داری بھی نبھا رہے ہیں۔ کہا جارہا ہیکہ ٹرمپ ۔ کم جونگ ملاقات اب بھی خطرے میں ہے کیونکہ فریقین نے بہت زیادہ احتیاط اور انا کا مظاہرہ کیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹرمپ جنہوں نے بڑی مشکل سے 12 جون کو سنگاپور میں کم جونگ سے ملاقات کیلئے آمادگی کا اظہار کیا ہے، شاید ملاقات ہی نہ کرسکیں۔ اہم ترین وجہ یہ بھی ہیکہ شمالی کوریا اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں کی ٹسٹنگ کا سلسلہ ہنوز جاری رکھے ہوئے ہے جس سے نہ صرف جنوبی کوریا بلکہ امریکہ بھی شدید تشویش میں مبتلاء ہے لیکن جنوبی کوریا نے ایک کام بہت ا چھا کیا ہے اور وہ یہ کہ ’’سردجنگ‘‘ کے دو بڑے دشمنوں کو باہمی بات چیت کے لئے آمادہ کرلیا ہے جس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہیکہ مارچ میں مون جے ان نے اپنے قومی سلامتی مشیر کو وائیٹ ہاؤس روانہ کیا تھا جہاں ٹرمپ کو یہ پیغام بھیجا گیا تھا کہ شمالی کوریا اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں سے دستبردار ہونے اور بات چیت کرنے کیلئے تیار ہے۔ دوسری طرف اس پیشکش کو ٹرمپ نے قبول کرتے ہوئے ساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا اور کہا تھا کہ شمالی کوریا سے سودے بازی ؍ معاہدہ کیا جاسکتا ہے اور فوجی ٹکراؤ کو ٹالا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد حالات بدلنے شروع ہوئے۔ بہرحال، سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہ 12 جون کے بعد ہی واضح تصویر سامنے آئے گی۔