نو ججس کے منجملہ سات ججس کی حمایت
ہندوستانی نژاد امریکی اٹارنی نیل کیتال کی مخالفت
داخلہ کیلئے سیکوریٹی کے کم سے کم اور آسان مراحل
واشنگٹن ۔ 5 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے چھ مسلم ممالک کے شہریوں پر امریکہ آنے پر جس پابندی کا اطلاق کیا تھا، ابتداء میں انہیں کچھ قانونی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا تھا تاہم اب ایسا لگتا ہیکہ ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے والا ہے کیونکہ ملک کی سپریم کورٹ نے بھی ان کے متنازعہ سفری امتناع کی تائید کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور صدر کے فیصلہ کے خلاف دائر کردہ چیلنجوں کی سماعت بھی بدستور جاری رہے گی لیکن ساتھ ہی ساتھ ٹرمپ نے صدر کا عہدہ سنبھالنے کے صرف ایک ہفتہ بعد ہی ایران، لیبیا، شام، یمن، صومالیہ اور چاڈ کے شہریوں پر امریکہ آنے پر پابندی لگادینے کا حکم صادر کیا تھا تاوقتیکہ وہ یہ ثابت نہ کردیں کہ ان کا کوئی قریبی رشتہ دار امریکہ میں موجود ہے۔ دیگر عدالتوں کی جانب سے سفری امتناع عائد کئے جانے کو نو کے منجملہ سات ججس نے برخاست کردیا۔ جسٹس روتھ بیدر گنسبرگ اور جسٹس سونیا سوٹومیئر نے واضح طور پر کہا کہ وہ حکومت کی درخواست کو مسترد کردیں گے البتہ سفری پابندی کی تائید کرنے کی عدالت نے کوئی ٹھوس وجہ نہیں بتائی البتہ یہ ضرور کہا حکم عاملہ کے عاجلانہ اطلاق کے لئے ایک زیریں عدالت کی نظرثانی متوقع ہے۔ یو ایس سالیسیٹر جنرل نوئل فرانسس نے عدالتی دستاویزات میں اپنی بحث کچھ اس طرح پیش کی ہے کہ دیگر ممالک سے بھی امریکہ آنے والے شہریوں کی جس طرح جانچ پڑتال کی جاتی ہے بالکل اسی بنیاد پر معلومات کا تبادلہ بھی کیا گیا جن کیلئے دنیا کے کئی ممالک کی حکومتوں نے بھی دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔
دوسری طرف وائیٹ ہاؤس کے ترجمان ہوگن گڈلے نے بھی اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے سفری امتناع پر فوری اثر کے ساتھ اطلاق کے فیصلہ پر انہیں کوئی تعجب نہیں ہوا۔ یاد رہیکہ ٹرمپ کے سفری امتناع کے حکمنامہ کو ہوائی اور امریکن سیول لبرٹیز یونین نے چیلنج کیا تھا۔ ان کا استدلال تھا کہ اس نوعیت کے سفری امتناع سے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہوائی کی نمائندگی کرنے والے ہندوستانی نژاد امریکی اٹارنی نیل کیتال نے کہا کہ صرف قومیت کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھنے کی اس سے بدتر مثال کوئی اور نہیں ہوسکتی۔ نیویارک امیگریشن کولیشن ایگزیکیٹیو ڈائرکٹر اسٹیون چوئی نے اس فیصلہ کو نسل اور مذہب کی بنیاد پر کیا جانے والا غلط فیصلہ قرار دیا جو ’’امریکیوں‘‘ کا شیوہ نہیں ہوسکتا۔ یہ ہمارے لئے ناقابل قبول ہے۔ مسٹر چوئی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں کے امریکہ آنے پر پابندی عائد کردینے سے امریکہ کوئی عظیم تر یا محفوظ تر ملک نہیں بن جائے گا۔ جس طرح پہلی بار ہم نے ٹرمپ کے اس حکمنامہ کی مخالفت کی تھی بلکہ اسی طرح یہ مخالفت آج بھی جاری رہے گی کیونکہ ٹرمپ کا ایسا کرنا ہمارا آزادی سلب کرنے کے مترادف ہے جبکہ ٹرمپ کی کیمپین کمیٹی کے ایگزیکیٹیو ڈائرکٹر مائیکل گلاسز نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کا خیرمقدم کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ 16 جون 2015ء سے لیکر آج تک ڈونالڈ ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی ہمیشہ ایک ہی نکتے پر مرکوز رہی اور وہ یہ کہ امریکیوں کو ایسے عناصر سے پاک اور محفوظ رکھا جائے جو ہمیں نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور ہماری آزادی پر حملے کرنے کے خواہاں ہیں اور اس طرح ٹرمپ نے جو وعدہ کیا تھا اسی کے مطابق اپنی انتظامیہ کو بھی یہ اہم ذمہ داری سونپی کہ وہ امیگریشن کے طریقہ کار کی کڑی نگرانی کریں یعنی یہ دیکھیں کہ سابقہ حکومت میں امیگریشن کے کیا طریقہ کار تھے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ امریکی سرزمین پر دہشت گردانہ حملوں کا اعادہ نہ ہوسکے اور اب جبکہ سپریم کورٹ نے سفری امتناع پر عائد تحدیدات کو برخاست کردیا ہے تو یہ بات بھی تقریباً یقینی ہوگئی ہیکہ اب امریکہ میں داخلے کیلئے سیکوریٹی کے کم سے کم مراحل اور آسانیوں کو متعارف کروایا جائے گا۔