اسرائیل کی درالحکومت کے طور پر یروشلم کو تسلیم کرانے کی کوششوں کے بعد بین الاقوامی سطح پر امریکی صدر کو شدید تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔فسلطین نے صدر ٹرمپ کے منصوبوں کی خبروں جس میں یروشلم کو اسرائیلی کی درالحکومت اعلان کیاگیا ہے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ مشرقی وسطی میں امن مذاکرات پر یہ فیصلہ کار ضرب ثابت ہوگا ۔وزیر اعظم رامی حمداللہ نے کہاکہ متنازع شہر میں اسرائیل کے امریکی سفارت خانہ کی منتقلی جس کے متعلق کہاجارہا ہے کہ پچھلے چہارشنبہ کے روز اعلان کیاگیا ہے اور یہ اقدام دوریاستی حل کی امیدوں کو’’ تباہ کردے گا‘‘۔
فسلطینی سیاست داں حنان اشروی نے کہاکہ اس خبر کے تناظر میں فلسطین اور اسرائیل کو علیحدہ مملکتیں قائم کرنے اور تسلیم کرانے کے ضمن میں جاری کوششوں کے درمیان امریکہ کی دلالی کے لئے یہاں پر’’ کوئی گنجائش‘‘ نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ ’’ امن کی بات چیت اب ختم‘‘ ہوگئی ہے۔انہوں نے ذاتی طور پر یہ فیصلہ کرلیا ہے ۔ ہم سے بات کرنے کی بھی زحمت گوارہ نہیں کی ہے‘‘۔
ٹرمپ کے مجوزہ منصوبے کے بعد بھی فلسطینی یروشلم میں مقیم ہیں ‘ یہ اعلان غیرمتوقع نہیں ہے۔ اسکائی نیوز سے بات کرتے ہوئے ایسٹ یروشلم میں سرگرم سماجی جہدکار جواد صیام نے کہاکہ ’’ یہاں تک اسرائیل سے امن بات چیت کی چھوٹی امید جو باقی تھی ‘ ٹرمپ نے آکر اس کو بھی ختم کردیا‘‘۔فلسطین اور اسرائیل دونوں کا دعوی ہے کہ یروشلم ان کی درالحکومت ہے اور امن معاہدے میں بھی اس بات کو قطعیت دی گئی تھی۔
اسرائیل کا1948سے یروشلم پر قبضہ ہے مگر 1967کی جنگ کے بعد مغربی کنارہ جویروشلم کے مشرق میں ہے پر بین الاقوامی سرحد حد بندی کے حوالے سے قبضہ کرنے کاشروع کردیا جس کے متعلق اس کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف وزری کابھی مرتکب قراردیاگیا۔
قطعی معاہدے میں فلسطین نے شہر پر اپنا قبضہ حاصل کرلیا اور اسرائیل انتظامیہ کو زمینی حقائق کو تباہ کرنے کرتے ہوئے عرب آبادی کے لئے مشکلات کھڑا کرنے کا ملزم ٹھرایا۔مذہبی عقائد کی بنیاد پر یروشلم کے متعلق یہودی عقائد ہیں کہ ان کے کنگ ڈیو ٹمپل ماونڈ کے اطراف اکناف قدیم دور میں شہر بسایاتھا۔ کئی اسرائیلی اور موجودہ حکومت اس کو مشترکہ درالحکومت مانتی ہے۔
ایسٹ یروشلم کو فلسطینی مانتے ہیں ہ تیسرا مقدس مقام قبل اول ہے ‘ اسی کے علاوہ قدیم عیسائی گرجا گھر اور300,000فلسطینی جو40فیصد یروشلم آبادی پر مشتمل ہیں۔اعلان کے مطابق کہاجارہا ہے کہ یہ فیصلہ ’’ تاریخی او رموجودہ‘‘ حقائق کو طاق پر رکھ کر سیاسی مفادات کے پیش نظر لیاگیا ہے۔
اسرائیل سفارت خانہ کی منتقلی کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔اسرائیل کے وزیر اعظم بنجامن نتن یاہو نے فیس بک کے ذریعہ کہاکہ ہر روز ہماری تاریخ شناخت کے لئے منفرد نشانیاں سامنے آرہے ہیں‘ مگر یہ خاص ہے‘‘۔بین الاقوامی قائدین اس کی مذمت کررہے ہیں اور اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد باضابطہ فیصلے کو ناقابل قبول قراردیا ہے۔پوپ فرانسیس نے کہاکہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق اس مقام کے لئے جو ں کا توں موقف برقرار رکھنا چاہئےوہیں پر وزیر اعظم تریسیا نے کہاکہ ہونا تو چاہئے تھا کہ یروشلم اسرائیل اور مستقبل کی فلسطین ریاست کا مشترکہ درالحکومت رہنا چاہئے۔
یروشلم کے ایک وکیل ڈانیال سیڈمین نے اسکائی نیوز سے کہاکہ وہ سفارت خانہ کی منتقلی امن مذاکرات کے ’’موت کا صداقت نامہ ‘‘ ہوگا اور انہوں نے ’’ کچھ بھی تبدیل نہ کئے جانے‘‘ کی پیش کش کی۔یروشلم اب کبھی متحد نہیں ہوسکتا۔ فلسطینیوں پر دباؤ کے قبضے میں جینا پر مجبور کیاجارہا ہے‘‘۔ٹرمپ کے اس فیصلے پر عرب ورلڈ کئے گوشوں سے مذمت کی گئی۔ ترکی کے وزیر خارجہ میلوٹ کوسوگولو نے کہاکہ ’’ سارے دنیا اس کے خلاف ہے‘‘اور کہاکہ یہ’’ فاش غلطی ہے‘‘ اس سے ’’ کشیدگی اور عدم استحکام ‘‘ میں اضافہ ہوگا۔
You must be logged in to post a comment.