ٹرمپ کی ایران معاہدہ سے علیحدگی

جو بھی اپنے ہیں وہ دیوار کے اس جانب ہیں
لوگ اپنے پسِ دیوار کہاں ہوتے ہیں
ٹرمپ کی ایران معاہدہ سے علیحدگی
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے اعلانات اور اشاروں کے مطابق ایران کے ساتھ طئے پائے نیوکلئیر معاہدہ سے دستبرداری اختیار کرلی ہے ۔ اس طرح ڈونالڈ ٹرمپ نے نہ صرف ایران پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے اور اپنے ساتھی پانچ عالمی طاقتوں کے اعتماد کو ٹھیس پہونچائی ہے بلکہ انہوں نے خود امریکہ کی سابق حکومت کو بے وقعت کرکے رکھ دیا ہے ۔ اب یہ مثال بن سکتی ہے کہ ایک حکومت اپنے دور اقتدار میں کسی ملک سے کوئی معاہدہ کرے یا پھر اپنے ہی ملک کے عوام سے کوئی وعدہ کرے دوسری حکومت جو ان ہی عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوتی ہے وہ اس معاہدہ کو قبول کرنے سے انکار کردے یا عوام کو دئے گئے تیقن سے لا تعلقی کا اظہار کردے ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو معاہدات اور سمجھوتے ہوتے ہیں وہ کسی پارٹی یا کسی صدر یا وزیر اعظم کے مابین نہیں ہوتے بلکہ ممالک کی حکومتوں کے مابین ہوتے ہیں اور کئی معاہدے آج دنیا بھر میںایسے ہیں جو سابقہ حکومتوں کی جانب سے کئے گئے تھے اور موجودہ حکومتوں کی جانب سے آج تک ان کا احترام کیا جاتا ہے ۔ یہی بین الاقوامی قانون ہے اور یہی روایات رہی ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ اپنے خطرناک عزائم اور ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے ان قوانین اور روایات کی پاسداری کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ وہ اپنی من مانی کرنے میں یقین رکھتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے وہ اسرائیل کے ہاتھوں میں کھلونا اورکٹھ پتلی بن کر رہ گئے ہیں۔ انہیں خود امریکہ یا امریکی حکومت کے وقار کی کوئی پرواہ یا فکر نہیں رہ گئی ہے ۔ وہ صرف اپنے ایجنڈہ اور مفادات کی تکمیل میں مصرو ف ہوگئے ہیں ۔ جہاں تک ایران کا سوال ہے اس نے نیوکلئیر معاہدہ پر قائم و دائم رہنے کا اعلان کرتے ہوئے اپنے موقف کے حق میں عالمی رائے کو ہموار کرنے کی کوشش کی ہے ۔ ایران نے اپنے طور پر یہ بھی فرض کرلیا ہے کہ اس معاہدہ سے امریکہ کی علیحدگی کے بعد اس پر تحدیدات عائد ہوسکتی ہیں اوریہ تحدیدات اس کیلئے دو یا تین ماہ مشکلات پیدا کرسکتی ہیں اور پھر ایران کوئی راہ نکال لے گا ۔ امریکہ کی تحدیدات اس کیلئے زیادہ کچھ پریشان کن یا مشکلات کا باعث نہیں ہوسکتیں۔
تاہم جہاں تک ڈونالڈ ٹرمپ کامسئلہ ہے ان کی دماغی حالت کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایران پر صرف کچھ تحدیدات عائد کرنے پر ہی اکتفا نہیں کرینگے ۔ وہ اس کے آگے بھی جاسکتے ہیں اور اس کا اعلان بھی کرنا شائد وہ ضروری نہ سمجھیں۔ وہ کسی بھی قیمت پر اپنے ‘ اسرائیل کے عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بننا چاہتے ہیں ۔ وہ ایک صیہونی اور قابض طاقت کے ہاتھوں کھلونا بن گئے ہیں اور مظلوم فلسطینیوں کو ان کا حق دلانے کی بجائے اسرائیل کی مدافعت کرتے ہوئے خود بھی اس کے مظالم میں حصہ دار بن رہے ہیں۔ اب ایران کے معاملہ میں بھی ڈونالڈ ٹرمپ اسرائیل کے عزائم ہی کی تکمیل کر رہے ہیں۔ اسرائیل اور ایران کے اختلافات کوئی ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے خلاف بظاہر بہت ہی سخت گیر بیانات دیتے ہیں۔ ایسے میں اگر اسرائیل کے کوئی خفیہ عزائم ہیں تو پھر امریکہ ان سے ناواقف نہیں ہوسکتا اور اس کی تکمیل کا ذریعہ ڈونالڈ ٹرمپ بن رہے ہیں۔ انہوں نے اسرائیلی عزائم کی تکمیل کیلئے خود امریکہ حکومت کا وقار داؤ پر لگادیا ہے ۔ وہ سابقہ حکومت کے معاہدہ سے دستبرداری اختیار کرچکے ہیں اور شائد اس کی مثال ماضی قریب میں نہیں مل پائے گی ۔ تاہم ٹرمپ کو اس بات کی کوئی فکر و پرواہ نہیں ہے کہ ان کے اس فیصلے سے خودا مریکہ کی حکومت یا امریکہ کی جانب سے کئے جانے والے معاہدات کی یا وقعت رہ جائے گی ۔
اب جبکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے ایران کے ساتھ نیوکلئیر معاہدہ سے دستبرداری اختیار ہی کرلی ہے اور وہ اپنے عزائم میں مزید پیشرفت چاہتے ہیں تو ان عالمی طاقتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ امریکہ اور اس کو اشاروں پر نچانے والے اسرائیل کے عزائم کی تکمیل کو روکنے کیلئے میدان میں آگے آئیں۔ خود اقوام متحدہ کے جوہری توانائی ادارہ کو بھی اس معاملہ میں دیانتداری کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے ۔و ہ کئی بار توثیق کرچکا ہے کہ ایران نے نیوکلئیر معاہدہ کی کوئی خلاف ورزی نہیں کی ہے ۔ پانچ عالمی طاقتوں کو ایران کی مدافعت میں امریکہ پر اثر انداز ہونے کی ضرورت ہے ۔ امریکہ اگر خود اور اقوام متحدہ کو کھلونا بناتے ہوئے ایران پر تحدیدات عائد کرتا ہے تو ان عالمی طاقتوں کو ان تحدیدات کو قبول کرنے سے گریز کرنا چاہئے ۔ ان تحدیدات کو بے اثر کرنے کیلئے ان ممالک کو ‘ جو نیوکلئیر معاہدہ کا حصہ ہیں ‘ سرگرم رول ادا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امریکہ کی ہٹ دھرمی کا اثر زائل ہوسکے ۔