ٹرمپ مخالف مظاہرے

کامیابی ہے تری اعداد کی بازی گری
اس سے ٹھنڈے ہو نہیں سکتے کبھی آتش فشاں
ٹرمپ مخالف مظاہرے
عوامی احتجاج کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی حلف برداری کے بعد سے امریکہ کے تمام بڑے شہروں کے بشمول مختلف ممالک میں مخالف ٹرمپ احتجاج میں شدت کا پیدا ہونا اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ عوام کی اکثریت نے انہیں امریکی صدر کی حیثیت سے تسلیم نہیں کیا ہے۔ واشنگٹن ڈی سی میں احتجاجی عوام پر طاقت کا استعمال کیا گیا۔ ان پر جرائم کے الزامات عائد کئے گئے، آنسو گیاس شل برسائے گئے۔ اگر ان امریکی احتجاجی شہریوں پر جرم ثابت ہوجائے تو ایک دہے کے لیے جیل میں محروس ہونا پڑے گا اور ان کو 2,50,000 امریکی ڈالر کا جرمانہ بھی عائد ہوگا لیکن امریکہ کے بعض قانون دانوں نے ڈپارٹمنٹ آف جسٹس پر زور دیا کہ مخالف ٹرمپ احتجاج میں حصہ لینے والوں کو سزا نہیں دی جانی چاہئے۔ امریکی اٹارنی کے دفتر نے بعدازاں اعلان کردیا کہ گرفتار شدہ امریکیوں کو رہا کردیا جائے۔ اپنی رہائی کے بعد بھی یہ شہری مخالف سرمایہ دارانہ نظام کا نعرہ بلند کرکے روانہ ہوئے۔ امریکہ میں ایک تاجر، رئیل اسٹیٹ کاروبار کے مالک کو اقتدار کا ملنا سب سے بڑی غفلت ثابت ہوئی ہے تو پھر امریکہ کے شہری دنیا کے مختلف ملکوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے اچانک خوفناک واقعات رونما ہونے لگیں تو یہ بھیانک تبدیلی ہوگی۔ حلف برداری تقریب کے دوران خلافِ روایت عوام نے احتجاجی مظاہرے کئے۔ امریکہ ہی نہیں دیگر ملکوں جیسے آسٹریلیا، برطانیہ، نیوزی لینڈ میں بھی مخالف ٹرمپ مظاہرے ہوئے۔ ایشیاء میں بھی مظاہروں کے ذریعہ ٹرمپ کی کامیابی کو مسترد کردیا گیا ہے۔ مظاہرین نے ڈونالڈ ٹرمپ کو بہروپیا اور دھوکے باز بھی کہا۔ اس طرح کے واقعات اور حلف برداری کے بعد امریکی میڈیا کی ٹرمپ کے تعلق سے تبصرہ نگاری نے ایک نئے ماحول کی جانب اشارہ دیا ہے۔ ٹرمپ کی تقریب حلف برداری میں کتنے لوگ تھے اور کتنے نہیں، امریکی میڈیا میں نئی بحث نے طوفان کھڑا کردیا ہے۔  دھمکیوں اور ہٹ دھرمی کے ساتھ عوام سے مخاطب ہونے والے ٹرمپ کو جب میڈیا نے آئینہ دکھایا تو برا مان گئے۔ ٹرمپ کو میڈیا سے شکایت پیدا ہوئی کہ اس نے انہیں خاطر میں نہیں لایا۔ جب ایک بڑے ملک کا صدر حلف لینے کی تقریب میں شریک افراد کی تعداد بڑھا چڑھاکر بتاتا ہے اور ان کا ترجمان افراد کی تعداد کم ہونے کا اعتراف کرے تو پھر میڈیا کا کیا قصور ہے۔ ٹرمپ نے حلف برداری کے بعد سوپر پاور ملک کی صدارت سنبھالی ہے انہیں پہلے کے برعکس ہر قدم پر محتاط رہنے کی ضرورت ہوگی لیکن حلف لینے کے بعد وہ سی آئی اے کے دفتر پہنچ کر میڈیا پر شدید ناراضگی ظاہر کی اور کہا کہ زمین پر سب سے زیادہ بددیانت کوئی ہے تو وہ میڈیا والے ہیں۔ میڈیا نے سچائی کو پیش کرنے کا عہد کیا ہے مگر یہ سچائی نو منتخب صدر کو کھٹک رہی ہے۔ کیوں کہ ٹرمپ نے اپنی حلف برداری تقریب میں شریک لوگوں کی تعداد 15 لاکھ بتائی جبکہ ان کے ترجمان اسپانسر نے سات لاکھ شریک ہونے کا دعوی کیا۔ دراصل برطانوی میڈیا نے واضح کہا کہ حلف برداری تقریب کے لیے جاری کردہ ٹکٹوں کی جملہ تعداد ہی ڈھائی لاکھ تھی۔  اس سچائی کو تسلیم کرنے کے بجائے انہوں نے میڈیا کو ہی بددیانت دار قرار دیا۔ یہ سچ بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ مخالف ٹرمپ احتجاج پیرس، برسلز، برلن اور سڈنی کے علاوہ دنیا کے 670 سے زیادہ مقامات پر ہوا جہاں خواتین کی بڑی تعداد نے سڑکوں پر نکل کر ٹرمپ کو نشانہ بنایا۔ ریالیوں میں شریک امریکیوں نے اندیشے ظاہر کئے کہ ٹرمپ کے دور میں بھیانک غلطیاں ہوں گی ’’ہم خوف زدہ ہیں‘‘ اور ’’ہمیں خدشات ہیں‘‘ کے بیانر اٹھائے عوام کا احساس بتارہا ہے کہ امریکہ کے نئے صدر کو آنے والے دنوں میں مزید مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کی صلاحیتوں کی پہلی آزمائش انتخابی وعدوں کو پورا کرنے کی دوڑ میں شدت پیدا کرنے سے زیادہ عالمی حالات اور تقاضوں کو سمجھنا اور اس پر توجہ دینی ہوگی۔ عالمی میڈیا ہمیشہ ہی سے امریکی جیوری سسٹم کو خراج تحسین پیش کرتا آرہا ہے۔ جارج واشنگٹن کی قیادت میں 1789 سے امریکی قوم بھی اس پر پیہم عمل پیرا ہے۔ ٹرمپ بھی اس عمل کا ایک حصہ ہیں۔