…!ٹرمپ: امریکہ و دنیا کے لیے خطرہ

سکھادی بیوفائی بھی تمہیں ظالم زمانے نے
کہ تم جو سیکھ لیتے ہو ہم ہی پر آزماتے ہو
…!ٹرمپ: امریکہ و دنیا کے لیے خطرہ
امریکی حکومت ہر سال پینسٹھ ہزار H1B ویزا جاری کرتی ہے جبکہ امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے بیرونی طلباء کو 20 ہزار H1B ویزے دیئے جاتے ہیں۔ اب یہ ویزا ہندوستانی طلباء اور کمپنیوں کے لیے ایک عذاب بن جائے گا۔ صدر کی حیثیت سے اپنے انتخاب کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈونالڈ ٹرمپ ایک کے بعد دیگر سخت فیصلے کررہے ہیں۔ ان کی حکومت نے ایک ایسا قانون امریکی ایوان نمائندگان میں متعارف کروایا ہے جس سے امریکہ میں کام کرنے والی کمپنیوں کے لیے بیرونی ورکرس کی قابلیت اور مہارت سے استفادہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔ اس بل میں H1B ویزا پر ملازمت کرنے والوں کو سالانہ تنخواہ 1.30 لاکھ امریکی ڈالر دینے کی اقل ترین اجرت مقرر کی گئی ہے۔ ایچ ون بی ویزا ایک نان ایمگرینٹ ویزا ہے جو امریکی کمپنیوں کو بیرونی ورکرس کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اس ویزا کے تحت یہ کمپنیاں بیرون ملک سے 65,000 ملازمین حاصل کرتے ہیں تو امریکہ کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرکے ماسٹر ڈگری پانے والے طلباء کو 20 ہزار ویزا دیئے جاتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ کے نئے قانون سے ہندوستان سے آنے والے بیرونی ورکرس کے بشمول دیگر ورکرس کو تبدیل کرکے مقامی امریکی ورکرس کو ملازمت پر رکھنا لازمی ہوجائے گا۔ H1B ویزا کے حامل افراد کی اقل ترین اجرت 60 ہزار امریکی ڈالر 1989 میں مقرر کی گئی تھی جب سے اب تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی پالیسیوں نے ایک طرف تشویشناک صورتحال کو جنم دینے کا اشارہ دیا ہے تو دوسری طرف بڑی کمپنیوں کو خسارہ کی کھائی میں ڈھکیل دیا ہے۔ بڑی آئی ٹی کمپنیوں کے شیرز میں اچانک 4 فیصد کی گراوٹ سے ساری شیر مارکٹ اتھل پتھل کا شکار ہوگئی۔ ان کے مارکٹ سرمایہ میں 33000 کروڑ کا نقصان ہوگیا۔ صدر کے فیصلے کی اطاعت کرنے سے جو نقصانات ہوں گے اس کے اثرات امریکہ اور دیگر ممالک میں بھی دکھائی دیں گے۔ امریکہ جیسے طاقتور ملک میں ٹرمپ کی غیر مستحکم کرنے والی پالیسیاں کو بڑھاوا دیا جارہا ہے تو آنے والے دنوں میں صدارت پر فائز شخص کی اہمیت و حیثیت کا سوال سنگین رخ اختیار کرسکتا ہے۔ تاریخ سے بڑا سبق سیکھ کر ہی امریکہ نے 200 سال بعد اپنی بنیادوں کو سب سے زیادہ مضبوط بنایا تھا مگر تاریخ عظیم سے جب کوئی سبق نہیں سیکھتا تو اسے لاپرواہی اور غلطیوں سے ہونے والے نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹرمپ نے اندھا دھند طریقہ سے اپنے انتخابی وعدوں کو بروئے کار لانا شروع کیا ہے۔ امریکی ویزا حاصل کرکے امریکی سرزمین پر قدم رکھنے والوں کو جلاوطن یا ملک بدر کرنے کی پالیسی کی شدید مخالفت کے درمیان اگر ٹرمپ نے اپنے فیصلہ کی حکم عدولی کرنے والی قائم مقام اٹارنی جنرل سیلی پئیٹس کو برطرف کردیا ہے تو یہ تمام امریکی عہدیداروں کے لیے ایک سخت پیام ہے۔ ٹرمپ نے امیگریشن سے متعلق اپنے ایگزیکٹیو آرڈر کی حمایت نہ کرنے پر اٹارنی جنرل کو عہدے سے ہٹادیا۔ اس اٹارنی کے حق میں اب تک کسی بھی مسلم ملک نے آواز نہیں اٹھائی۔ ہنا تو یہ چاہئے تھا کہ صدر امریکہ کے جارحانہ فیصلوں کی مخالفت کرتے ہوئے تمام مسلم ممالک اپنے سفارتی تعلقات کے ذریعہ سرگرم مہم چلاتے۔ عالمی سطح پر طاقت کا محور تیزی سے تبدیل کردیا گیا ہے۔ کل تک روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات کو نہایت ہی کشیدہ مانا جاتا تھا الیکن ٹرمپ کی کامیابی میں صدر روس پوٹین کے رول کا جائزہ لینے والوں نے ٹرمپ کی کامیابی کو امریکہ کے لیے قیامت سے کم قرار نہیں دیا۔ امریکہ کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے کہ ایک منتخب صدر شدت و تیزی کے ساتھ تنازعات میں محصور ہورہا ہے۔ جیسا کہ تنقیدیں ہورہی ہیں کہ امریکی صدارتی انتخاب میں ٹرمپ کو کامیاب بنانے کے لیے صدر روس پوٹین نے خفیہ ٹکنالوجی کا استعمال کیا تھا اور انتخابی نتائج تبدیل کراکے اپنے حامی صدارتی امیدوار کو وہائٹ ہائوز کا مکین بنادیا ہے تو آنے والے دنوں میں پوٹین۔ٹرمپ خفیہ دوستی کے جوہر سے پھوٹ پڑنے والی خرابیاںامریکہ کے بشمول دیگر کئی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لیں گی۔ سابق صدر امریکہ بارک اوباما نے نومبر میں قیاس آرائی کی تھی کہ ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ اور دنیا کے لیے خطرہ ہیں۔