ٹرمپ۔ کم چوٹی ملاقات

مرے خلوص کی حد یہ تجھے معاف کیا
یہ اور بات تیرا قتل اختیار میں ہے
ٹرمپ۔ کم چوٹی ملاقات
دنیا میں ہر کوئی جنگ کرسکتا ہے، طاقتور ملک کمزور کو ڈرا سکتے ہیں لیکن امن و سلامتی پر قائم رہنے کی کوشش ایک دلیرانہ اور جرأت مندانہ بلکہ عقلمندانہ عمل کہلاتی ہے۔ امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان نیو کلیر ہتھیاروں کے مسئلہ پر کئی برس سے جاری کشیدگی خاصکر گزشتہ ایک سال سے ہونے والی لفظی جنگوں کے بعد اب صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ اور صدر شمالی کوریا کم جونگ اُن کے درمیان نیو کلیئر ہتھیاروں کے تلف کرنے اور اس کیلئے کام کرنے پر بات چیت ہوئی۔ جب کسی ملک کا حکمراں اپنے عوام کی فلاح و بہبود، جان ومال کے تحفظ کی فکر صحیح رکھتا ہے تو وہ مدِ مقابل طاقتوں یا کمزور ملک کے ساتھ تصادم کی راہ اختیار نہیں کرتا۔ شمالی کوریا کے پاس نیو کلیر ہتھیاروں کی تیاری نے امریکہ کو بے چین کردیا تھا۔ خاصکر جب سے کم جونگ اُن نے اپنے والد کے انتقال کے بعد شمالی کوریا کا اقتدار سنبھالا تو امریکہ کے لئے تشویش و فکر کا باعث بن گیا تھا۔ صدر امریکہ ٹرمپ نے شمالی کوریا کی نیو کلیر تیاریوں کے بعد اس ملک پر تحدیدات عائد کئے تھے لیکن جب معاشی مسائل پیدا ہوتے ہیں تو ہر بڑی طاقت کمزور پڑ جاتی ہے۔ شمالی کوریا نے امریکہ کے ساتھ دھمکیوں اور چیلنجس والے ماحول کو ختم کرنے کے لئے صدر ٹرمپ سے ملاقات کا فیصلہ کیا، اور دونوں جانب اس سربراہ چوٹی کانفرنس کی تیاریوں میں بھی احتیاط سے کام لیا گیا۔ ٹرمپ ۔ کم جونگ کی اس ملاقات اور اعلامیہ پر دستخط کے بعد شمالی کوریا کو اپنے نیوکلیر ہتھیار تلف کرنے ہوں گے ۔ یہ ایسے خطرناک ہتھیار ہیں جن کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ شمالی کوریا نے اگر ان کا استعمال کیا تو امریکہ کا کوئی شہر محفوظ نہیں رہے گا۔ ٹرمپ اور کم کی اس ملاقات پر کئی عالمی تجزیہ کاروں خاصکر خود امریکہ کے اندر سیاسی و سفارتی تجزیہ کاروں نے ملا جلا ردِعمل ظاہر کیا ہے۔ اکثریت کا یہ احساس ہے کہ ٹرمپ اور کم کی اس ملاقات میں صدر شمالی کوریا کم جونگ کی ہی جیت ہوئی ہے، ایک سپر پاور ملک امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے کیلئے مجبور کرتے ہوئے جنگ کے میدان سے بات چیت کی میز پر لابٹھایا ہے۔ امریکی ڈیموکریٹک پارٹی کے قائدین کا خیال ہے کہ ٹرمپ کی اس کوشش نے امریکہ کا کمزور موقف بنادیا ہے کیونکہ ان ڈیموکریٹس کی نظر میں شمالی کوریا کے ڈکٹیٹر کم جونگ اُن نے ہی امریکہ پر بالا دستی حاصل کرلی ہے کیونکہ ٹرمپ نے امریکہ کا وقار اور رُعب اور اس کا دبدبہ کم جونگ کی ٹھوکر پر رکھ دیا۔ اس ملاقات کے بعد شمالی کوریا پر عالمی طاقتوں کی توجہ مرکوز ہوجائے گی اور لوگ سوپر پاور امریکہ کے بجائے شمالی کوریا کو اس تناظر میں دیکھنا پسند کریں گے۔ ٹرمپ نے بظاہر نیوکلیر ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے شمالی کوریا سے معاہدہ کیا ہے لیکن ان کی پالیسیاں یا نادانیاں امریکہ کے سابق صدور کی پالیسیوں کے برعکس ظاہر ہوئی ہیں۔ خاصکر سابق صدر بارک اوباما نے شمالی کوریا کے متوفی صدر کم جونگ دوم کو اپنے سیاسی اور ڈپلومیسی شکنجے میں کس کر رکھا تھا اور سابق صدور امریکہ نے بھی شمالی کوریا کو دباؤ میں رکھا تھا۔ اس مرتبہ کم جونگ اُن ، امریکہ پر دباؤ بڑھانے میں کامیاب ہوئے۔ شمالی کوریا کے صدر سے ٹرمپ کی ملاقات، مصافحہ، بات چیت کی تفصیلات کا تجزیہ کرنے والوں نے اسے ٹرمپ کی ناکامی قرار دیا ہے۔ لیکن برسوں بعد جب کوئی پہل ہوئی ہے تو اس کے تعلق سے مثبت رائے رکھنا ضروری ہے کیونکہ کسی بھی امریکی صدر نے آج تک اپنے دور اقتدار میں کسی شمالی کوریائی لیڈر سے ملاقات نہیں کی، اور ٹرمپ ۔ کم جونگ کی اس ملاقات کے تعلق سے بھی کئی قیاس آرائیاں ہورہی تھیں۔ اب اس ملاقات اور اعلامیہ پر دستخط کے بعد نیو کلیر ہتھیاروں کے اتلاف کو یقینی بنانے اور امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کو بڑھانے کی ذمہ داری کم جونگ اُن کی ہے۔ امریکہ نے اس معاہدہ پر دستخط کرنے کے ساتھ ایک شرط بھی رکھی ہے کہ جب تک شمالی کوریا اپنے اعلامیہ کے مطابق اپنے نیو کلیر ہتھیار ختم نہیں کرتا اور جزیرہ کوریا کے خطہ کو نیوکلیر ہتھیاروں سے پاک نہیں بناتا، اس پر تحدیدات کا عمل برقرار رہے گا۔ ہندوستان نے صدر امریکہ ٹرمپ اور شمالی کوریا لیڈر کم جونگ اُن کی اس تاریخی ملاقات کا خیرمقدم کیا ۔ دراصل یہ ملاقات ایک مثبت تبدیلی ہے، ہندوستان کو بھی اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے تعلق سے ایسی ہی تبدیلی کی امید رکھنی چاہیئے یا کوشش کرنی ہوگی۔ ہندوستان نے ہمیشہ امن و استحکام کی حمایت کی ہے اور اسے برصغیر خطہ میں بھی امن و استحکام کے لئے پڑوسی ملک پاکستان کے بارے میں کشیدہ رجحانات کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔