ویلنٹائن ڈے

۴۱؍ فروری کو دنیا کے مختلف ملکوں میں ویلنٹائن ڈے بنانے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے، جو ’’یوم عاشقاں‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے، جس میں اجنبی لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے سے اظہار محبت کرتے ہیں اور پیار و محبت کی علامتوں پر مبنی تحائف کا تبادلہ کرتے ہیں اور بعض اپنی دانست میں اس دن کو یہ سمجھتے ہیں کہ محبت کرنے والے اس دن ایک دوسرے سے اظہار محبت کریں تو بہت جلد دونوں شادی کے بندھن میں بندھ جائیں گے۔ یہ بالکل غیر اسلامی اور مشرکانہ نظریہ ہے۔ مزید یہ کہ یہ دن ویلنٹائن نامی پادری سے موسوم ہے، جس نے تیسری صدی عیسوی میں رومی بادشاہ کلوڈیس کے عہد میں شاہی حکم کے خلاف فوجی نوجوانوں کی خفیہ طورپر شادی کروائی تھی، جس کی پاداش میں ۴۱؍ فروری کو قتل کردیا گیا تھا، اسی کی یاد میں عقیدت مند عیسائیوں نے اس دن کو محبت کے دن سے منسوب کرتے ہوئے ایک دوسرے سے اظہار محبت کا آغاز کیا اور یہ دن عیسائیوں کے مذہبی مراسم کا ایک جز بن گیا۔ مغربی ممالک میں اس دن کو فروغ ملا، جس کے منفی اثرات نوجوان لڑکے اور لڑکیوں میں ظاہر ہونے لگے، جو کہ یقینی تھے۔ چند دہوں قبل عیسائی کلیساؤں نے اس دن (یوم عاشقاں) سے براء ت کا اظہار کیا اور اعن کیا کہ یہ کوئی مذہبی دن (یا تہوار) نہیں ہے، اس کے باوصف اس دن کو مغربی ممالک میں کافی شہرت ملی۔ تاہم افسوس اس بات کا ہے کہ مسلم ممالک اور مسلم معاشرہ میں بھی اس کے اثرات ظاہر ہونے لگے اور مسلمانوں کی ایک تعداد اسلام اور شریعت کی پرواہ کئے بغیر مغربی تہذیب کی اندھی تقلید کرتے ہوئے اس غیر اخلاقی و غیر اسلامی طریقے کا حصہ بن رہی ہے اور اس پر فخر و ناز کر رہی ہے۔ کیا وہ اللہ تعالی کے اس ارشاد کو بھول گئے کہ ’’اے محبوب! آپ فرمادیجئے کہ دنیا کا فائدہ معمولی ہے اور آخرت سب سے بہترین ہے، اور آخرت اس بندے کے لئے بہتر ہے جو پرہیزگار ہوا‘‘۔ (سورۃ النساء۔۷۷)

اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’اے ایمان والو! اسلام میں کامل طورپر داخل ہو جاؤ اور شیطان کے راستوں پر نہ چلو، یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے‘‘ (سورۃ البقرہ۔۸۰۲) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسط سے قیامت تک آنے والے تمام مسلمانوں کو اللہ تعالی کی طرف سے حکم ہے: ’’پھر ہم نے آپ کو شریعت پر مقرر کیا، پس آپ اسی شریعت کی پیروی کیجئے، ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں جو علم نہیں رکھتے‘‘ (سورۃ الجاثیہ۔۸۱) اللہ تعالی نے اپنے دین کے لئے ہم کو منتخب فرمایا اور فرمایا ’’اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کرلیا‘‘۔ (سورۃ المائدہ۔۳)
اسی رب نے اپنے چنندہ مؤمن بندوں کو اپنی غیرت سے واقف کروایا کہ اگر تم ہدایت پانے کے بعد ظالموں سے دوستی کروگے، ان کے اثرات قبول کروگے اور تمہارا رجحان ان ظالموں کی طرف ہوگا تو تمہارا حشر بھی ان ہی کی طرح ہوگا۔ ارشاد فرمایا ’’تم ایسے لوگوں کی طرف مائل نہ ہونا، جنھوں نے (اللہ کے دین کو چھوڑکر اپنی خواہشات کی پیروی کرکے) ظلم کئے، ورنہ تمھیں آتش جہنم چھولے گی اور تمہارے لئے اللہ کے سوا کوئی مددگار نہ ہوگا، پھر تمہاری مدد بھی نہیں کی جائے گی‘‘ (سورہ ہود۔۳۱۱) فرمایا ’’اے ایمان والو! تم یہود و نصاری کو دوست نہ بناؤ، وہ (تمہارے خلاف) ایک دوسرے کے دوست ہے، تم میں سے جو شخص ان کو دوست بنائے گا، بے شک وہ ان میں سے ہی ہے اور اللہ ظالم قوم کو ہدایت نہیں فرماتا‘‘۔ (سورۃ المائدہ۔۱۵)
مفسرین کرام نے مذکورہ بالا آیات قرآنی کے تحت لکھا ہے کہ غیر مسلموں کو دوست بنانا، ان سے مشابہت اختیار کرنا اور ان کے ظاہری طور طریقوں اور رسم و رواج کو اختیار کرنا شرعاً ممنوع ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے گا، وہ ان ہی میں سے ہوگا‘‘۔ بعض روایات میں یہ ذکر ہے کہ ’’جو کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے گا، اس کا حشر اس کے ساتھ ہوگا‘‘۔ حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی تشریح میں طیبی کا قول نقل کیا ہے کہ ’’غیر قوم سے مشابہت اختیار کرنا ظاہری ہیئت، اخلاق و کردار، عادات و اطوار اور رسم و رواج ہر ایک پر شامل ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی تشخص کی حفاظت و صیانت پر غیر معمولی توجہ فرمائی اور غیر قوم کی تہذیب، کلچر، رکھ رکھاؤ، رہن سہن، طرز معاشرت اور ظاہری شکل و ہیئت میں ذرا سی بھی مشابہت کو پسند نہیں فرمایا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کمر پر ہاتھ رکھنے کو ناپسند فرماتے تھے، وجہ یہ تھی کہ اس طرح یہود کیا کرتے تھے۔ ایک اور روایت میں نماز میں کمر پر ہاتھ رکھنے کو ناپسند کرنے کے الفاظ آئے ہیں۔ حتی کہ اسلام کے سلسلے میں ارشاد فرمایا ’’ہم میں سے نہیں وہ جو ہمارے غیر کی مشابہت اختیار کرے، تم نہ یہودیوں کی مشابہت اختیار کرنا اور نہ ہی نصاریٰ کی۔ بلاشبہ یہود کا سلام کرنا ہاتھوں سے اشارہ کرنا ہے اور نصاریٰ کا سلام کرنا ہتھیلیوں سے اشارہ کرنا ہے‘‘۔

ویلنٹائن ڈے (یوم عاشقاں) کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ مخالف شریعت اور غیر اخلاقی طور طریقوں پر مبنی ہے۔ کسی اجنبی لڑکے کا کسی لڑکی سے ملنا، اس سے گفتگو کرنا، اظہار محبت کرنا، تحائف دینا، چھونا اور بوس و کنار کے علاوہ چیاٹنگ کرنا سب خلاف شریعت اور گناہ ہے۔ کان، آنکھ اور دل تینوں کی حفاظت کرنا لازم ہے، قیامت کے دن ان تینوں سے متعلق ہم سے سوال ہوگا۔ ارشاد ربانی ہے: ’’بے شک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کی باز پرس ہوگی‘‘ (سورہ بنی اسرائیل۔۶۳) زمانہ قدیم کے کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
کل الحوادث مبدأ ھا النظر
ومعظم النار من متصغر الشرر

ترجمہ:۔ ’’تمام مصیبتوں کی جڑ نگاہ ہے اور اکثر آگ چھوٹے سے شرر ہی سے لگتی ہے‘‘۔ کسی شاعر نے اس ضمن میں کہا ہے:
نظرۃ فابتسامۃ فسلام
فکلام فموعد فلقاء
یعنی نظر، پھر مسکراہٹ، پھر سلام، پھر کلام، پھر ملنے کا وعدہ اور پھر ملاقات۔
واضح رہے کہ نظر بد ہی تمام مفاسد اور خرابیوں کی جڑ ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نظربد کو شیطان کے زہر آلود تیروں میں سے ایک تیر قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ’’آپ مؤمن مردوں سے فرمادیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں، یہ ان کے لئے بڑی پاکیزہ بات ہے۔ بے شک اللہ ان کاموں سے خوب آگاہ ہے، جو یہ انجام دے رہے ہیں۔ اور آپ مؤمن عورتوں سے فرمادیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں، سوائے اس (حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہر نہ کریں، سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے…‘‘۔ (سورۃ النور۔۰۳،۱۳)

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں امہات المؤمنین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’’اے نبی مکرم کی ازواج! تم عورتوں میں سے کسی ایک کی بھی مثل نہیں ہو، اگر تم متقی ہو تو (بوقت ضرورت) بات کرتے وقت نرم لہجہ اختیار نہ کرنا، جس کے دل میں بیماری ہے وہ طمع نہ کرنے لگے معروف بات کرنا اور اپنے گھروں میں جمی رہنا، قدیم جاہلیت کی طرح زیب و زینت کا اظہار نہ کرنا، نماز قائم کرنا، زکوۃ ادا کرنا اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا‘‘ (سورۃ الاحزاب۔۲۳،۳۳) اور صحابہ کرام کو حکم ہے کہ ’’جب ان کو ضرورت کے وقت امہات المؤمنین سے کچھ طلب کرنا ہو تو وہ پردے کے پیچھے سے طلب کیا کریں، یہ طریقہ دلوں کے لئے بہت پاکیزہ ہے‘‘۔ (سورۃ الاحزاب۔۳۵)

بدنگاہی فتنہ و فساد کی جڑ ہے اور وہ شیطان کا نہایت کارگر ہتھیار ہے، اس سے دوسری بڑی برائیاں جنم لیتی ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو اپنی نگاہ کی حفاظت کرتا ہے، اللہ تعالی اس کو ایمان کی حلاوت عطا فرماتا ہے‘‘۔
اللہ تعالی نے ہمارے سینوں میں دل اپنی محبت اور اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے لئے پیدا فرمایا ہے اور جب تک اللہ اور اس کے رسول کی محبت دل میں کامل و راسخ نہیں ہوتی، ایمان بھی عروج و کمال کو نہیں پہنچتا۔ کس قدر معیوب بات ہے کہ یہ دل جو خانہ خدا ہے، اللہ کی محبت کا گہوارہ ہے، اس گھر میں دنیا کی مردار محبت کو جگہ دیں۔ یہ کس قدر غیرت اسلامی اور حمیت ایمان کے خلاف ہے۔ آج ہم خواہش نفسانی کی پیروی میں اللہ تعالی کی ناراضگی مول لے رہے ہیں۔ ویلنٹائن ڈے جیسے غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور غیر شرعی امور کا بائیکاٹ کرنا، اس سے رکنا، دوسرے مسلم بھائی بہنوں کو روکنا اور ان کے سامنے اس کی قباحت و برائی کو ظاہر کرنا ہماری ذمہ داری اور اسلامی فریضہ ہے۔