سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی اخبار نیوریارک ٹائمز کو دئے گئے انٹرویو میں کہاکہ ہم سعودی معاشرے کو ویسا بنانا چاہتے ہیں جیسا 1979میں سے پہلے تھا
ریاض ۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے حال ہی میں امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو دئے گئے انٹرویو میں کہاکہ ہم ملک میں اسلام کو اس کی اصل شکل میں واپس لے جانا چاہتے ہیں او رسعودی معاشرے کو ویسا بنانا چاہتے ہیں جیسا وہ 1979سے پہلے تھا۔اس حوالے سے کئی لوگوں کے ذہن میںیہ اٹھا کہ 1979میں ایسا کیاہوا تھا جس نے سعودی معاشرے کی شکل تبدیل کردی تھی ؟سال1979ویسے تاریخ میں اور واقعات کی وجہ سے کافی اہمیت حاصل ہے لیکن سعودی عرب میںیہ سال مکہ میں خانہ کعبہ پر کئے جانے والے حملہ اور دوہفتوں پر محیط محاصرے کی وجہہ سے یاد کیاجاتا ہے جس میں ہزاروں افراد ہلاک اور تقریبا ایک لاکھ لوگ مسجد الحرام میں محصور ہوگئے تھے۔38برس قبل چار ڈسمبر کو سعودی حکومت نے فرانسیسی کمانڈوز ‘ پاکستانی فوج او رسعودی فوج کی مدد سے لڑائی کا خاتمہ کیاجس کا آغاز 20نومبر کو ہوا تھا جب400سے500شدت پسندوں نے یکم محرم 1400ہجری کو نئے اسلامی سال کے آغاز پر خانہ کعبہ پر حملہ کرکے ایک لاکھ عبادت گذاروں کو مسجد میں محصور کرکے خود انتظام سنبھال لیاتھا۔
حملہ آوروں کی قیادت کرنے والے جہیمان بن محمد بن سیف العتیبی کا تعلق نجد کے ایک بد و قبیلے سے تھا او روہ سعودی عرب کے معروف عالم دین عبدالعزیز بن باز کی تعلیمات سے نہایت متاثر تھا۔عبد العزیز بن باز1940ء اور 1950ء کی دہائی میں سعودی عرب کے جد ت پسندی کی راہ پر گامزن کرنے کی شاہی کوششوں کے خلاف تھے اور ا س کے بارے میں تقاریت اور تنقید کرتے تھے‘ لیکن بعد میں سعودی حکومت نے بن باز کو مرکزی مفتی کے عہدے پر فائز کردیا تاہم ان کی تنقید ختم نہ ہوئی ۔
جہیمان بن محمد بن سیف العتیبی بھی انہی تقاریر سے متاثر ہوئے جس کے بعد انہو ں نے عبدالعزیز بن باز کی قائم ہوئی سلفی جماعت میں شمولیت اختیار کرلی جس کا مقصد سعودی عرب میں اسلام کی اصل شکل برقرار رکھنا تھا او رسعودی عرب میں بڑھتی ہوئی مغربیت ‘ مخلوط ماحول کا قیام او رٹیلی ویثرن کے منفی اثرکوختم کرنا تھا۔ العتیبی کی شدت پسندی وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی گئی جس کے بعد1978ء میں سعودی حکومت نے انھیں ان کے کچھ ساتھیو ں کے ساتھ حراست میں لے لیا۔ رہائی ملنے کے باوجود العتیبی کے خیالات میں تبدیلی نہیں ائی او راپنے ساتھیو ں کے ساتھ مل کر انہو ں نے نئی اسلامی صدی کے آغاز پر خانہ کعبہ پر حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا اور20نومبر1979کو فجر کی نماز کے موقع پر اپنے تقریبا500ساتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ میں داخل ہوکر دروازے بند کردئے اور ایک لاکھ نمازیوں کو یرغمال بناکر مسجد کو اپنے زیر انتظام لے لیا۔
انہوں نے اپنے بہنوائی محمد بن عبداللہ القحتانی کو امام مہدی قراردیا ۔ یہ صدیوں میں پہلا موقع تھا جب خانہ کعبہ عام مسلمانوں کے لئے بند کردیاگیا تھا۔سعودی حکومت نے اس واقعے سے نمٹنے کے لئے اپنی فوج بھیجی لیکن خانہ کعبہ کے تقدس او رکم تربیت کی وجہ سے سعودی فوجی بغاوت کرنے والوں کے خلاف متاثر کن کاروائی کرنے میں ناکام رہے ۔ سعودی حکومت نے خفت سے بچنے کے لئے مواصلاتی نظام بند کردیاتاکہ اس واقعہ کے بارے میں خبر محدود رہے لیکن وہ اس میں مکمل طور پر کامیاب نہ ہوئے۔پاکستان میں اس خبر کے آنے کے بع داسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ پر حملہ کردیاگیا کیونکہایراین کی جانب سے اسے امریکہ او راسرائیلی سازش قراردیاگیاتھا۔
مسلسل ناکامی کے بعد سعودی حکومت نے فرانس کی حکومت اور پاکستانی فوج سے مدد طلب کی۔صحافی یارو سلاف ٹرافی موونے اس واقعے پر مبنی اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ فرانسیسی کمانڈوز نے سعدی فوج کو ہنگامی تربیت دی تاکہ وہ شدت پسندوں کا خاتمہ کرسکیں لیکن کیونکہ مکہ مں غیرمسلم افراد کا داخلہ ممنوع ہے تو سعودی اہلکار پاکستان فوجیوں کی مدد سے چار ڈسمبر کو یہ بغاوت بالآخر ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ اس واقعہ کے بعد مسجد کی عمارت کو کافی شدید نقصان ہوا لیکن خانہ کعبہ محفوظ رہا۔ غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس واقعہ میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔او رشہید ہونے والے میں مسجد کے نمازی‘ فوجی اور ہلاک ہونے والوں میں شدت پسند شامل تھے۔