رضیہ چاند
قرآن مجید، فرقان حمید ایک نوشتۂ الہی ہے، جس کا مصنف اللہ تعالی ہے اور یہ کلام عربی زبان میں ہے۔ قرآن کریم کا ایک بہترین وصف یہ ہے کہ بہت جلد یاد ہو جاتا ہے، اس کی تلاوت سے کبھی بیزاری نہیں ہوتی، یہی وجہ ہے کہ اس کلام پاک کے کئی کئی دور ہو جاتے ہیں۔ چھوٹے بچے اس کو جلد حفظ کرلیتے ہیں۔ یہ آسمانی صحیفہ ہے۔ قرآن پاک انقلاب عظیم کا سرچشمہ ہے۔ وحی کلام الہی ہے، مطلب یہ ہے کہ پس زبان تمہاری ہے اور کلام ہمارا، روشنی ہماری ہے اور چراغ تمہارا۔
حدیث شریف میں ہے کہ عرش عظیم کے اوپر اللہ تعالی نے ایک لوح رکھا ہے۔ جب رحمت اور غضب کا مقابلہ ہوتا ہے تو رحمت آگے آگے چلتی ہے اور غضب پیچھے رہ جاتا ہے۔ یہ عرش عظیم کے اوپر بطور دستاویز لکھ کر رکھ دیا ہے۔ مسلم دنیا میں سب سے زیادہ لٹریچر رحمت کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں چھپتا ہے اور چھپتا رہے گا۔ قرآن پاک میں لکھا ہے: ’’ورفعنا لک ذکرک‘‘۔ اللہ تعالی کا فرمان عالیشان ہے کہ ’’ہم نے تمہارے ذکر کو بلند کیا ہے‘‘ جس کی پہلی مثال اذان ہے۔
پاک کلام کی کئی آیات مکہ شریف میں نازل ہوئیں اور کئی آیات کا نزول مدینہ منورہ میں ہوا۔ قرآن عزیز رمضان المبارک میں نازل ہوا، یہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے۔ کلام پاک کی تلاوت کرنا، گویا خداوند عالم سے ہمکلامی ہے۔ حافظ قرآن کے والدین کو روز محشر نور کا تاج پہنایا جائے گا۔ اللہ تعالی حافظ قرآن سے پل صراط پر چڑھتے وقت فرمائے گا ’’تو قرآن پڑھتا جا، جس طرح دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا‘‘۔
دنیا کتنی بھی ترقی کرے، کلام اللہ کی پڑھائی کے بغیر کامیابی نصیب نہیں ہوگی۔ قرآن حکیم حکمت سے بھرا ہوا ہے، مؤمن کی زندگی کے تمام معمولات تمام شعبہ حیات پر محیط ہے۔ کھانا، پینا، رہن سہن، امانت و خیانت، اخلاق و آداب، تہذیب و تمدن، حسد، جھوٹ، غیبت، چوری، شرم و حیا، حجاب و پردہ، عفو و درگزر، صلہ رحمی سے کام لینا، زنا اور شراب سے بچنا، ایفائے عہد، صاف گوئی وغیرہ، گویا ہر چیز کا ذکر ہے۔
قرآن پاک کی شان و عظمت نمایاں اور ممتاز ہے۔ ھدی للمتقین اور ھدی للناس کا دعویٰ ہے، اور یہ ایک بہت بڑی حقیقت ہے کہ جس نے اس سے ہدایت حاصل کرنا چاہا، وہ کبھی مایوس نہیں ہوا۔ عرب کے باشندوں نے اسے گلے سے لگایا، روم اور ایران کی سلطنتیں اس کے قدموں میں آکر گریں۔ غلاموں نے جب آنکھوں سے لگایا تو تاج شاہی ان کے سروں کی زینت بنا۔ مٹھی بھر لوگ اس کو لے کر مغرب میں گئے۔ اس کلام کا ایک اور وصف ہے، یعنی اس کے اندر اصلاح کی قوت ہے، مؤمن کی روح و قلب کی یکساں تربیت کرتا ہے۔ نفس باطن کو جلا بخشتا ہے، مؤمن کے فضائل اور اخلاق کو کچھ اس طرح سنوارتا ہے کہ ان کے اخلاق و کردار سے نیکیوں کا ظہور ہونے لگتا ہے۔ کلام الہی میں جذب و تاثیر ہے اور رہے گا، قاری و سامع دونوں (یعنی پڑھنے والا اور سننے والا) اس کے اندر ڈوب جاتے ہیں، بالفاظ دیگر آفاق میں گم نہیں ہوتے، بلکہ آفاق ان میں گم ہو جاتا ہے۔ علامہ اقبال نے قرآن پاک اور دورِ حاضر کے مسلمانوں کے تعلق سے کیا خوب کہا ہے:
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر