۱ ۔ عالم میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے اور ہوگا سب کو اللہ تعالیٰ نے ازل ہی میںلکھ دیا ہے۔ اب اس کے خلاف کچھ نہیں ہوسکتا‘ اسی کا نام تقدیر ہے ۔
۲ ۔ بندوں کے بھلے بُرے تمام کاموں کا پیدا کرنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ لیکن بھلے کاموں سے وہ راضی ہے اور برے کاموں سے ناراض ہوتا ہے ۔
۳ ۔ بندوں کو کسی کام کے پیدا کرنے کی قدرت نہیں ‘ البتہ ان کو اللہ تعالیٰ نے سمجھ اور ارادہ دیا ہے جس سے بھلے برے کام وہ اپنے اختیار سے کرتے ہیں۔ اسی بناء پر ثواب و عذاب کے مستحق ہوتے ہیں ۔ یعنی نیک کام کریں تو اللہ تعالیٰ خوش ہوتا اور ثواب عنایت فرماتا ہے اور برے کام کریں تو ناخوش ہوتا اور عذاب دیتا ہے۔
۴ ۔ ہر شخص کی موت کا وقت بھی ازل میں مقرر ہوچکا ہے۔ جب وقت آتا ہے تو لاکھ تدبیریں کریں لمحہ بھر دیر نہیں لگتی اور جب وقت نہیں آتا تو پھر (جادو ‘ زہر ‘ وباء ‘ طاعون وغیرہ) کسی چیز سے بھی نہیں مرسکتا ۔
(تنبیہ ) صفت ایمان مفصل کی تشریحات یہاں ختم ہوگئیں ۔
٭ انبیاء کے بعد سب سے برتر صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم ) ہیں ۔
٭ صحابہ وہ لوگ ہیں جو بحالت ایمان آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صحبت سے مشرف ہوئے ہوں اور ان کی موت بھی حالت ایمان میں ہوئی ہو۔
٭ صحابہ تمام اُمت اور اولیائے اُمت سے بزرگ و افضل ہیں ۔ ان کی شان میں بڑی بڑی فضیلتیں آئی ہیں ۔ یہ سب قابل تعظیم و لائق ادب ہیں ۔
٭ صحابہ میںسب سے افضل چار صحابی ہیں‘ جو خلفائے راشدین کہلاتے ہیں :
٭ حضرت ابوبکر صدیق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) جو پہلے خلیفہ ہیں اور تمام اُمت سے برتر ہیں انبیاء کے بعد آپ ہی کا درجہ ہے ۔
٭ حضرت عمر فاروق (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) جو دوسرے خلیفہ ہیں اور خلیفہ اول کے بعد سب سے برتر ہیں ۔
٭ حضرت عثمان ذوالنورین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) جو تیسرے خلیفہ ہیں اور خلیفہ اول و دوم کے بعد سب سے برتر ہیں ۔
٭ حضرت علی مرتضیٰ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) جو چوتھے خلیفہ ہیں اور پہلے تین خلفاء کے بعد سب سے برتر ہیں ۔
(تنبیہ : ۱) ان حضرات میں باہم اسی ترتیب سے فضیلت ہے جس ترتیب سے یہ خلیفہ ہوئے ہیں ۔
(تنبیہ : ۲) یہ چاروں صحابہ اور ان کے علاوہ اور چھ صحابہ قطعی جنتی ہیں انہی کو عشرہ مبشرہ کہتے ہیں (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین )۔
اخذ: نصاب اہل خدمات شرعیہ حصۂ عقائد
مرسل : ابوزہیر