ووٹ کے لیے رقم ملتے ہی لوگ خریداری میں مصروف

الیکٹرانک اشیاء اور سیل فونس کی مانگ میں اضافہ، کھمم اور بھدراچلم میں 300 کروڑ کے خرچ کا اندازہ
حیدرآباد۔ 10ڈسمبر (سیاست نیوز) اسمبلی انتخابات کی رائے دہی کے فوری بعد اضلاع میں خریداری میں شدت پیدا ہوگئی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی جانب سے ووٹ حاصل کرنے کے لیے رائے دہندوں میں بڑے پیمانے پر رقومات کی تقسیم کا نتیجہ ہے کہ رائے دہی کے فوری بعد لوگ خریداری کے لیے نکل پڑے ہیں۔ کھمم سے موصولہ اطلاعات کے مطابق الیکٹرانک اور گھریلو اشیاء کی خریدی میں زبردست اضافہ دیکھا گیا بعض افراد تو جویلری خریدی میں مصروف تھے۔ ٹی وی، ریفرجریٹر، سیل فون، واٹر ہیٹر اور واٹر پیوریفائر جیسے اشیاء کی مانگ میں اضافہ ہوچکا ہے۔ کھمم کے ایک رائے دہندہ کے نیراجا نے بتایا کہ انہیں پانچ ووٹ کے لیے 20 ہزار روپئے دو پارٹیوں کی جانب سے دیئے گئے اور ان کے والد نے ٹی وی خریدنے کا فیصلہ کرلیا۔ کھمم کے کمان بازار جہاں اشیائے ضروریہ سے متعلق دکانیں موجود ہیں، کافی ہجوم دیکھا گیا۔ ریڈی میڈ کپڑوں کی دکانوں پر بھی گاہکوں کا ہجوم تھا۔ گھریلو اشیاء کے ایک تاجر اے نریش کا کہنا ہے کہ رائے دہی کے فوری بعد اکثر کاروبار میں اضافہ ہوتا ہے۔ 20 ماہ قبل کھمم میونسپل کارپوریشن کے انتخابات کے فوری بعد اسی طرح کاروبار ہوا تھا۔ کھمم اور بھدادری اضلاع کے 10 اسمبلی حلقوں میں امیدواروں کی جانب سے تقریباً 300 کروڑ روپئے کے خرچ کیئے جانے کی اطلاعات ملی ہیں۔ کھمم میں امیدواروں نے تقریباً 70 کروڑ روپئے خرچ کیے جبکہ الیکشن کمیشن نے 28 لاکھ کی حد مقرر کی ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں سے الیکشن کمیشن انتخابی خرچ پر قابو پانے کے لیے اقدامات کررہا ہے اور اس سلسلہ میں مبصرین کی خدمات حاصل کی گئیں لیکن یہ اقدامات امیدواروں کو بھاری رقم خرچ کرنے سے روک نہیں سکے۔ 70 کروڑ میں انتخابی مہم کا خرچ اور رائے دہندوں میں تقسیم کی گئی رقم شامل ہے۔ ہر شخص کو ووٹ کے لیے دو ہزار روپئے دیئے گئے جبکہ ایک پارٹی کے امیدوار نے تقریباً 1.5 لاکھ افراد میں اس طرح کی رقم تقسیم کی۔ بعض مقامات پر آزاد امیدواروں نے بھی بھاری رقومات خرچ کیے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ رائے دہندوں کے لیے انتخابات کسی تہوار سے کم نہیں جو ہر پانچ سال میں ایک بار آتا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ امیدوار جو رقم خرچ کرتا ہے وہ اس کی محنت کی کمائی نہیں ہوتی بلکہ مختلف ذرائع سے حاصل کردہ آمدنی ہے۔ ایک اسکول ٹیچر نے بتایا کہ الیکشن میں جو رقم حاصل ہوتی ہے وہ دراصل زائد آمدنی ہے۔ کئی امیدواروں نے شخصی بات چیت میں بھاری رقم خرچ کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گھر گھر مہم، ریالیوں کے انعقاد، سوشل میڈیا پر مہم اور میڈیا میں اشتہارات پر بھاری خرچ ہوتی ہے۔