ولایت مصطفی کا سلسلہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے قائم

حبیب محمد بن عبداﷲ رفیع المرغنی
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دو دعائیں مانگی تھیں ایک یہ کہ باری تعالیٰ میری ذریت سے خاتم الانبیاء پیدا فرما۔ دوسرے میری ذریت کو منصب امامت عطا کر چنانچہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شکل میں نبی آخر الزماں تشریف لے آئے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نبوت ختم ہو جانے کے بعد اب یہ لازمی تقاضا تھا کہ حضور رحمت کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کا فیض اب امامت و ولایت کی شکل میں آگے چلے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذریت میں ولایت بھی آ گئی، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا صلبی بیٹا نہ تھا سو اب نبوت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فیض اور امامت و ولایت مصطفوی کا مظہر تھا اسلئے ضروری تھا کہ یہ کسی مقدس اور محترم خاندان سے چلے، ایسے افراد سے چلے جو حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صلبی بیٹا تو نہ ہو مگر ہو بھی جگر گوشہء رسول، چنانچہ اس منصب عظیم کے لئے حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لاڈلی بیٹی خاتون جنت سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا پر قدرت کی نگاہ انتخاب پڑی۔
حضرت علیرضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کا آسمانی فیصلہ
اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی رضا اور مشیت سے یہ مقدس ہستیاں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ حدیث پاک میں ہے :حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک اللہ تعالی نے مجھے حضرت فاطمہ ؓکا حضرت علیؓ سے نکاح کرنے کا حکم دیا۔
تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ علی ؓ اور فاطمہؓ کی شادی کا فیصلہ آسمانوں پر ہو چکا تھا۔ یہ شادی امر الٰہی سے سرانجام پائی اس لئے کہ حضرت علیؓ سے ولایت مصطفی کے سلسلے کو قائم ہونا تھا اور حضرت علیؓ کو تکمیل دعائے ابراہیم علیہ السلام کا ذریعہ بنانا تھا اسی مقصد کے لئے تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی حضرت فاطمہؓ کے ذریعہ ایک اور مضبوط اور پاکیزہ نسبت بھی قائم ہوئی۔ آگے ہم ان دونوں مقدس ہستیوں کے فضائل و مناقب جو صحیح روایات سے ثابت ہیں ان کو بیان کریں گے تاکہ معلوم ہوجائے کہ مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم اور خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا اور ان کی اولاد اطہار جمہور اہل اسلام کے ہاں محترم و مکرم اور قابل عزت و تکریم ہیں یہ نہ تو کسی خاص فرقے کا مشرب و مسلک ہے اور نہ کسی کی خاص علامت ہے اور ایسا ہو بھی کیونکہ یہ خانوادہ نبوت ہے اور جملہ مسلمانوں کے ہاں معیار حق اور مرکز و محور ایمان وعمل ہے۔

فضائل مولا ئے کائنات رضی اللہ عنہ
خلیفہ چہارم حضرت علی مرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ وجہہ تحریک اسلامی کے عظیم قائد، نبی آخر الزماں حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انتہائی معتبر ساتھی، جاں نثار مصطفی اور داماد رسول تھے۔ آپ کی فضیلت کے باب میں ان گنت احادیث منقول ہیں جن میں سے بعض کا تذکرہ ذیل میں کیا جارہا ہے:
حضرت علیؓ کی صلب سے نبی کی ذریت: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر نبی کی ذریت اُس کی صلب سے جاری فرمائی اور میری ذریت حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی صلب سے چلے گی۔
حضرت علیؓ نبی کے قائم مقام: حضرت سعد بن ابی وقاص ؓسے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ کو غزوہ تبوک میں اپنا خلیفہ بنایا تو انہوں نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں خلیفہ بنایا ہے۔ اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ آپ اس چیز پر راضی نہیں کہ آپ میرے لئے اس طرح بن جائیں جس طرح کہ ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قائم مقام تھے مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔

حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے بعض کے گھروں کے دروازے مسجد نبوی (کے صحن) کی طرف کھلتے تھے ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ان تمام دروازوں کو بند کر دو سوائے باب علی کے، راوی کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے چہ می گوئیاں کیں اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ ارشاد فرمایا : حمد و ثناء کے بعد فرمایا مجھے باب علی کے سوا ان تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا گیا ہے پس تم میں سے کسی نے اس بات پر اعتراض کیا ہے ، خدا کی قسم نہ میں کسی چیز کو کھولتا اور نہ بند کرتا ہوں مگر یہ کہ مجھے اس چیز کے کرنے کا حکم دیا جاتا ہے پس میں اس (حکم خداوندی) کی اتباع کرتا ہوں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی فیصلے کرتا ہوں جن کا مجھے حکم دیا جاتا ہے۔ حکمت اس میں یہ تھی کہ جب کسی پر غسل واجب ہو گا اور وہ غسل کے لئے گھر سے نکلے گا تو ایسی حالت میں مسجد نبوی میں قدم رکھے گا اور مسجد کا تقدس مجروح ہو گا۔

حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ چیرا اور جس نے جانداروں کو پیدا کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے وعدہ فرمایا تھا کہ مجھ سے صرف مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق مجھ سے بغض رکھے گا۔ام المومنین حضرت سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے کہ کوئی منافق علیؓ سے محبت نہیں کر سکتا اور کوئی مومن علیؓ سے بغض نہیں رکھ سکتا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ انصار میں سے ہیں۔ ہم منافقوں کو حضرت علیؓ کے ساتھ بغض و عداوت کی وجہ سے پہچانتے ہیں۔فرمایا کہ اپنے دور میں ہمیں اگر کسی منافق کی پہچان کرنی ہوتی تو یہ پہچان حضرت علیؓ کے بغض سے کر لیتے جس کے دل میں حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ کا بغض ہوتا صحابہ رضی اللہ عنہ پہچان لیتے کہ وہ منافق ہے اس لئے کہ صحابہ رضی اللہ عنہ بھی جانتے تھے کہ ولایت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلسلہ علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے چلے گا۔
علی مجھ سے اور میں علی سے ہوں : بخاری شریف میں حضرت براء رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علیؓ سے فرمایا :اے علی تو مجھ سے ہے اور میں تجھ سے ہوں۔فرمایا تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ علی! اعلان کر دو کہ دنیا والے جان لیں کہ علیؓ مجھ سے ہے اور میں علی سے ہوں۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ روایت عام ہے :حضرت یعلی ؓسے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ اللہ اس شخص سے محبت کرتا ہے جس نے حسین سے محبت کی حسین نواسوں میں ایک نواسا ہے۔جبکہ مذکورہ بالا روایت میں یہی بات حضرت علی کے بارے میں ارشاد فرمائی میں علی سے ہوں اور علی مجھ سے ہے۔
حدیث مذکورہ کا مطلب ہے کہ علی! تو میرا مظہر ہے اور میں تیرا مظہر ہوں، تیرا صدور مجھ سے ہے اور میرا ظہور تجھ سے ہے۔ دیگر بہت سے ائمہ حدیث نے بھی اس مفہوم کی روایات بیان کی ہیں۔
ایک حدیث عام ہے کہ تاجدار کائنات حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہے۔ مکمل حدیث یوں ہے :حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں پس جو کوئی علم کا ارادہ کرے وہ دروازے کے پاس آئے۔
حدیث پاک کا دوسرا حصہ کہ پس جو کوئی علم کا ارادہ کرے وہ دروازے کے پاس آئے، بہت کم بیان کیا جاتا ہے۔ ارشاد کا مدعا یہ ہے کہ جس کو مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم درکار ہے وہ علیؓ کے دروازے پر آئے یہ در چھوڑ کر کوئی علم مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دہلیز کو نہیں پا سکتا۔