وقف سروے کمشنر کو ختم کرنے حکومت کی کوشش

چیف منسٹر دفتر سے اقلیتی بہبود کو تجویز ، ہزاروں اوقافی جائیدادوں کے ریکارڈ کو خطرہ
حیدرآباد ۔ 22۔ مئی (سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت کو وقف سروے کمشنر ادارہ کی برقراری سے کوئی دلچسپی نہیں ہے اور حالیہ عرصہ میں حکومت نے اس ادارہ کو وقف بورڈ میں ضم کرنے کی تجویز پیش کی ۔ واضح رہے کہ وقف ایکٹ کے تحت ہر ریاست میں وقف سروے کمشنر ادارہ کی موجودگی لازمی ہے۔ اس ادارہ کا مقصد اوقافی جائیدادوں کا وقتاً فوقتاً سروے کرتے ہوئے ریکارڈ اپ ڈیٹ کرنا ہے ، اس کے علاوہ اوقافی جائیدادوں اور اداروں کا ریکارڈ سروے کمشنر کے تحت محفوظ رہتا ہے ۔ حالیہ برسوں میں تلنگانہ میں سروے کمشنر وقف سے حکومت کی دلچسپی ختم ہوگئی اور چیف منسٹر کے دفتر سے محکمہ اقلیتی بہبود کو تجویز روانہ کی گئی کہ اس ادارہ کی علحدہ شناخت ختم کرتے ہوئے اسے وقف بورڈ میں ضم کردیا جائے۔ حکومت کی عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد وقف سروے کمشنر کے تحت ملازمین کی تعداد گھٹ گئی اور اب تو صرف ایک ملازم سے یہ ادارہ چل رہا ہے۔ سابق چیف اگزیکیٹیو آفیسر وقف بورڈ کو اس ادارہ کے نگرانکار کی حیثیت سے مقرر کیا گیا۔ سروے کمشنر وقف اسٹاف اور انفراسٹرکچر کے بغیر کس طرح فرائض انجام دے سکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ محکمہ اقلیتی بہبود نے وقف ایکٹ کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت کو لکھا کہ اس ادارہ کی برقراری ضروری ہے۔ وقف سروے کمشنر کے تحت ہزاروں کروڑ روپئے مالیتی اوقافی جائیدادوں کا ریکارڈ محفوظ ہے جو کہ وقف بورڈ میں دستیاب نہیں ۔ جب کبھی وقف بورڈ کو کسی ادارہ کے ریکارڈ کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ وقف سروے کمشنر سے رجوع ہوتا ہے۔ وقف بورڈ نے وقف ریکارڈ میں الٹ پھیر اور غائب کئے جانے کے واقعات کو دیکھتے ہوئے علحدہ وقف سروے کمشنر کی برقراری ناگزیر ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ سروے کمشنر کے تحت اسٹاف کی کمی کے نتیجہ میں یہاں بھی ریکارڈ محفوظ نہیں ہے۔ کئی جائیدادوں کی فائلوں سے کاغذات غائب ہیں یا پھر ریکارڈ میں تحریف کردی گئی۔

ان حالات میں تلنگانہ میں وقف جائیدادوں کا تحفظ خطرہ میں ہے۔ حکومت ایک طرف اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کا تیقن دے رہی ہے تو دوسری طرف وقف سروے کمشنر کو ختم کرنے کی کوشش یہ ثابت کرتی ہے کہ حکومت کو اوقافی جائیدادوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ جاریہ سال بجٹ میں وقف سروے کمشنر کے تحت 50 لاکھ روپئے مختص کئے گئے ۔ ان میں سے پہلے سہ ماہی کے تحت 25 لاکھ روپئے کی اجرائی کے احکامات جاری ہوئے لیکن جس میں سے ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا گیا۔ اوقافی جائیدادوں کا سروے مکمل ہونے کا بہانہ بناکر حکومت اس ادارہ کو ختم کرنا چاہتی ہے جبکہ عدالتوں میں اوقافی جائیدادوں کے مقدمات کے موقع پر اس ادارہ سے ریکارڈ حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے ۔ اگر سروے کمشنر وقف کے ریکارڈ کو وقف بورڈ منتقل کیا گیا تو اس کا حشر بھی اسی ریکارڈ کی طرح ہوگا جو وقف بورڈ میں موجود تھا لیکن اب نامکمل ہے۔ اوقافی جائیدادوں کو اگر تباہ کرنا ہے تو وقف سروے کمشنر کو وقف بورڈ میں ضم کیا جاسکتا ہے ۔ مسلم عوامی نمائندوں اور تنظیموں کو اس سلسلہ میں باقاعدہ مہم چلانے کی ضرورت ہے تاکہ حکومت وقف سروے کمشنر کو نہ صرف برقرار رکھے بلکہ ادارہ کو مضبوط کرے۔