اوقاف کا تحفظ شہ رگ ہے معیشت کی
یہ فرض ہے ہمارا غیروں سے کیا گلہ ہے
وقف جائیدادوں کا تحفظ
حکومت تلنگانہ وقف جائیدادوں پر غیرمجاز قبضے برخاست کرانے اور اس طرح کے تنازعات کی یکسوئی کیلئے سنجیدہ کوشش کررہی ہے۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی نے اس طرح کے مسائل سے نمٹنے کیلئے بین محکمہ جاتی رابطہ کاری کو مؤثر و بہتر بنانے پر زور دیا ہے۔ وقف جائیدادوں کے تحفظ کیلئے حکومت کی اولین ترجیح حیدرآباد و رنگاریڈی کی قیمتی اوقافی جائیدادوں پر ناجائز قبضوں کو برخاست کراکے ان کا استعمال کرتے ہوئے مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی اور سماجی ترقی کیلئے کیا جانے کا برسوں سے ہر حکومت منصوبہ بناتی آرہی ہے۔ ہر بار کوئی نہ کوئی مفاد حائل ہوتا ہے۔ اس مرتبہ ٹی آر ایس حکومت کی دیانتداری اور سنجیدہ کوششوں کو دیکھتے ہوئے یہ یقین کامل ہورہا ہیکہ شہر و اطراف و اکناف کی وقف جائیدادیں تحفظ کے تحت انتہائی جو مسلمانوں کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ حکومت ان جائیدادوں کے حصول اور اس کے مؤثر استعمال کا منصوبہ بناتی ہے تو اس کی کوششوں میں صرف سطحی مظاہرہ نہیں ہونا چاہئے۔ چیف سکریٹری ڈاکٹر راجیو شرما نے تمام محکمہ جات کے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ اجلاس طلب کرکے ہر محکمہ کے تحت آنے والی اراضی کی تفصیلات سرکاری پورٹل پر شامل کرنے کی ہدایت دی ہے۔ حیدرآباد میں اوقافی جائیداد کو زیرقبضہ لانے والوں میں مقامی طاقتور سیاسی گروپ یا اس کے قبضہ گیر حامی عناصر ہیں جن کو مقامی سیاسی مسلم قائدین کی سرپرستی حاصل ہے۔ ٹی آر ایس کو اپنے منصوبوں کے مطابق اوقافی جائیدادوں سے ناجائز قبضوں کو برخاست کرانے کے عمل میں کسی بھی قسم کی سیاسی طرفداری یا ہمدردی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ اس خصوص میں محکمہ اقلیتی بہبود یا وقف بورڈ کے پاس اختیارات نہیں ہیں تو اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کیلئے ان محکموں کی کوشش کامیاب نہیں ہوں گی۔ اس کے لئے باقاعدہ قانونی اختیارات کی حال کمیٹی ہونی چاہئے۔ وقف بورڈ سے تعلق رکھنے والی قبضہ کردہ اراضیات کیلئے معاوضہ جاری کرنے کا مسئلہ بھی دیرینہ زیرالتواء ہے۔ سب سے اہم معاملہ بیگم پیٹ میں پولیس ٹاسک فورس کے دفتر کی اراضی کا ہے۔ اس سرگرم مارکٹ علاقہ میں واقع پولیس ٹاسک فورس آفس 1100 مربع گز پرمحیط ہے لیکن پولیس نے وقف بورڈ کو ایک نیا پیسہ بھی نہیں دیا ہے۔ وقف جائیدادوں کے تحفظ کیلئے محکمہ اقلیتی بہبود کے اسپیشل سکریٹری سید عمر جلیل بھی اپنے حصہ کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن جب تک حکومت سختی سے کام نہیں لے گی ہر محکمہ کی کارکردگی اور وقف اراضیات کا تحفظ ممکن نہیں ہوگا۔ ڈپٹی چیف منسٹر محمود علی کو شہر اور اطراف و اکناف کی وقف جائیدادوں کے تحفظ کے علاوہ نئی ریاست تلنگانہ میں پائی جانے والی وقف اراضیات کا نوٹ لے کر جامع تحفظ منصوبہ وضع کرنے پرکام کرنا ہوگا۔ بعض طاقتور گروپ اپنے مقاصد میں کامیاب ہونے کیلئے مختلف طریقے اختیار کررہے ہیں۔ معظم جاہی مارکٹ میں بھی وقف جائیدادوں پر قبضۃ کرکے 2005ء میں وقف بورڈ سے نو آبجکشن سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہوئے ایک ڈیولپر نے جہاں عمارت کھڑی کرنی چاہی تھی مگر سید عمر جلیل نے جی ایچ ایم سی سے نمائندگی کی تھی کہ ایک وقف جائیدادوں پر عمارت کی تعمیر کی اجازت کو منسوخ کردیا جائے۔ اس طرح شہر کے اہم مقامات پر کئی بلین کی جائیدادوں پر غیرمجاز قابضین نے اپنے تصرف میں لایا ہے۔ اس لئے منشائے وقف کو یکسر فراموش کردیا گیا۔ حکومت تلنگانہ نے اراضیات پر قبضوں کو باقاعدہ بنانے کا فیصلہ کرکے بھی ان زمینات کے ناجائز قابضین کے حوصلے بلند کئے ہیں۔ ریاست میں وقف اراضیات کی بڑی تعداد کو محکمہ مال کے ریکارڈس میں لفظ ’’سرکاری‘‘ کے طور پر واضح ہے جس سے وقف اراضیات پر قبضہ کرنے والے عناصر اس ’’سرکاری‘‘ اراضی کے لفظ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکاری اونر شپ کے تحت باقاعدہ بنانے میں کامیاب ہوں گے۔ حکومت نے اس طرح کی سرکاری اراضیات کے تعلق سے گزٹ اعلامیہ میں بھی وضاحت نہیں ہے جس کی وجہ سے ناجائز قابضین کو کھلی چھوٹ مل رہی ہے۔ زائد از 50 فیصد وقف جائیدادوں کو بھی سرکاری اراضی کی حیثیت سے ریکارڈ میں رکھا گیا ہے۔ اس تعلق سے ہونے والی الفاظ کی تاریخی غلطی کی وجہ سے بھی ناجائز قابضین نے فائدہ اٹھایا ہے تو حکومت کو یہ ایسی تمام ’’سرکاری‘‘ اراضیات کہلانی والی جائیدادوں کے بارے میں تفصیلات اکھٹا کرکے اس پر قابض افراد کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے۔ افسوس اس بات کا ہیکہ حکومت ایک طرف اوقافی جائیدادوں کے تحفظ میں دلچسپی دکھا رہی ہے دوسری طرف سرکاری اراضیات پر ناجائز قابضین کو باقاعدہ بنانے کی پالیسی پر عمل کررہی ہے۔ اس لئے جی او 58 اور 59 کے تحت اگر ایک تحصیلدار وقف اراضی کو سرکاری آئین متصور کرکے باقاعدہ بنانے کافیصلہ کرے گا تو یہ سراسر ناانصافی ہوگی۔ این جی اوز کے خلاف ہائیکورٹ میں مقدمہ دائر کیا گیا ہے تو حکومت کو اپنے فیصلے پر غور کرنا ہوگا۔