تحقیقاتی افسر کا تقرر انتقامی کارروائی کے مترادف ، بورڈ کے فیصلہ پر حکومت کے حلقوں میں حیرت
حیدرآباد ۔ 27۔ ستمبر (سیاست نیوز) تلنگانہ وقف بورڈ نے آج سابق اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف تحقیقات کا متنازعہ فیصلہ کرتے ہوئے حکومت کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔ بورڈ نے آج اپنے اجلاس میں گزشتہ تین برسوں کے دوران خدمات انجام دینے والے عہدیداروں کے فیصلوں کی جانچ کیلئے تحقیقاتی افسر کا تقرر کیا۔ یہ فیصلہ بعض عہدیداروں کے خلاف انتقامی کارروائی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ بورڈ میں شامل بعض ارکان کو سابق عہدیداروں سے ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ بورڈ میں شامل بعض ارکان پر اوقافی جائیدادوں کو فروخت کرنے کے الزامات پر سابق اسپیشل آفیسرس نے کارروائی کا آغاز کیا تھا ۔ بورڈ کے آج کے فیصلہ پر حکومت کے حلقوں میں حیرت اور ناراضگی کااظہار کیا جارہا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بورڈ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیا۔ اسے کسی سرکاری عہدیدار کے خلاف تحقیقات کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر بورڈ عہدیداروں کے کسی فیصلوں کو غلط تصور کرتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ حکومت کو اس کی اطلاع دے۔ حکومت معاملہ کی جانچ میں بے قاعدگیوں کو محسوس کرے تو وہ تحقیقات کا آغاز کرسکتی ہے۔ تحقیقاتی افسر کا تقرر بھی حکومت کی ذمہ داری ہے نہ کہ وقف بورڈ کی۔ بتایا جاتا ہے کہ بورڈ کا اصل نشانہ سابق چیف اگزیکیٹیو آفیسر محمد اسد اللہ ہیں جنہوں نے انتہائی اصول پسندی کے ساتھ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کیلئے مساعی کی تھی ۔ موجودہ بعض ارکان کے دباؤ کو قبول نہ کرنے پر انہیں پہلے اجلاس سے ہی نشانہ بناتے ہوئے ان کی خدمات کو واپس کردیا تھا ۔ فروری سے آج تک بورڈ کا کوئی بھی اجلاس اسد اللہ کے خلاف اظہار خیال کے بغیر مکمل نہیں ہوا ۔ بتایا جاتا ہے کہ ارکان کے دباؤ پر سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل کے فیصلوں سے متعلق فائلوں کی جانچ کی گئی تاکہ کسی غلط فیصلہ کو بنیاد بناکر کارروائی کی جاسکے۔ عہدیدار مجاز کی حیثیت سے انہوں نے جو بھی فیصلے کئے ان کی جانچ کی گئی تاہم کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ بورڈ کے تحقیقات سے متعلق فیصلے سے خود بورڈ کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ چیف اگزیکیٹیو آفیسر موجودہ حالات میں خود کو بے بس تصور کر رہے ہیں۔ وقف امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اسپیشل آفیسر ہو یا عہدیدار مجاز انہیں بورڈ کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور ایک بورڈ کس طرح دوسرے بورڈ کے خلاف تحقیقات کرسکتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ وقف بورڈ پر مقامی سیاسی جماعت کے کنٹرول کے باعث صدرنشین بھی ان کی مرضی کے مطابق فیصلوں پر مجبور ہیں۔ آج کے اجلاس کا اچانک فیصلہ خود ارکان کی نیت کو ظاہر کرتا ہے۔ 11 رکنی بورڈ میں صرف 6 ارکان حاضر رہے جبکہ پانچ ارکان وحید احمد ایڈوکیٹ ، صوفیہ بیگم ، اسد اویسی ایم پی ، نثار حسین حیدر آغا اور تفسیر اقبال آئی پی ایس اجلاس میں شریک نہیں تھے۔ اس طرح کے متنازعہ فیصلوں کے وقت تمام ارکان کو اعتماد میں لیا جانا چاہئے تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ 2 اکتوبر کو صدرنشین وقف بورڈ عمرہ کیلئے روانہ ہورہے ہیں اور مقامی سیاسی جماعت کے ارکان نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اچانک اجلاس طلب کیا اور اعلیٰ عہدیداروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ۔ سابق عہدیداروں نے جن ارکان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا ، اس بارے میں صدرنشین کچھ بھی کہنے سے انکار کر رہے ہیں۔ وقف بورڈ میں دیانتداری اور اصول پسندی کے ساتھ خدمات انجام دینے والے عہدیداروں کو نشانہ بنانے کی کوششیں مسلمانوں کی ناراضگی کا سبب بن سکتی ہے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ آئی اے ایس ، آئی پی ایس اور آئی ایف ایس رتبہ کے عہدیداروں کی جانچ کا کام ایک اسسٹنٹ سکریٹری کے ذمہ کیا گیا جو رینک میں کافی جونیئر ہیں ۔