وقف بورڈ کے بعض فیصلوں کی تحقیقات ، عہدیداروں اور ارکان میں ہلچل

چیف ایگزیکٹیو آفیسر بورڈ کو میمو ، معمولی رقم پر انتظامات کے فیصلوں پر لاکھوں روپیوں کی معاملت کا الزام
حیدرآباد ۔ 2 ۔نومبر (سیاست نیوز) حکومت کی جانب سے وقف بورڈ کے بعض فیصلوں کی تحقیقات کے فیصلہ پر بورڈ کے ارکان اور عہدیداروں میں ہلچل دیکھی جارہی ہے۔ سکریٹری اقلیتی بہبود سید عمر جلیل جنہیں تحقیقات کی ذمہ داری دی گئی ، چیف اگزیکیٹیو آفیسر منان فاروقی کو میمو جاری کرتے ہوئے تمام فائلیں پیش کرنے کی ہدایت دی۔ چیف اگزیکیٹیو آفیسر نے بتایا کہ انہیں حکومت کا میمو موصول ہوچکا ہے اور وہ بہت جلد تمام تفصیلات اور متعلقہ فائلیں سکریٹریٹ روانہ کردیںگے۔ چیف اگزیکیٹیو آفیسر کی جانب سے اہم درگاہوں کے انتظامات کو لیز پر دیئے جانے سے متعلق بورڈ کے اجلاس میں منظورہ قرارداد کے ساتھ وضاحت بھی روانہ کی جائے گی۔ حکومت کا میمو ملتے ہی بعض ارکان اور عہدیدار تشویش کا اظہار کر رہے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ وقف بورڈ خود مختار ادارہ ہے ، لہذا حکومت کو فیصلوں میں مداخلت کا حق نہیں ہے۔ حالیہ عرصہ میں اوپن ٹنڈر کے بجائے نامینیشن پر درگاہوں کے انتظامات حوالے کرنے کے فیصلہ میں بعض ارکان کے رول کا معاملہ کھل کر سامنے آچکا ہے اور وقف بورڈ میں ارکان کے نام ہر سطح پر گشت کر رہے ہیں۔ حکومت کو اس بات کی شکایت ملی ہے کہ معمولی رقم پر انتظامات حوالے کرنے کے سلسلہ میں لاکھوں روپئے کی معاملت ہوئی ہے اور یہ معاملات وقف بورڈ کے دفتر کے باہر طئے کئے گئے۔ ان معاملات میں بورڈ کے بعض اعلیٰ عہدیداروں کو بھی شامل کیا گیا۔ تاہم عہدیدار اسے بورڈ کا فیصلہ قرار دے کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اوپن ٹنڈر کے بجائے نامینیشن پر انتظامات حوالے کرنے سے ہر درگاہ سے بورڈ کی لاکھوں روپئے آمدنی متاثر ہوئی ہے۔ اگر حکومت کنٹراکٹ کو منسوخ کرتے ہوئے دوبارہ اوپن ٹنڈر طلب کرنے کی ہدایت دیں تو اس سے وقف بورڈ کی آمدنی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ بورڈ کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر حکومت کی تحقیقات کو حق بجانب قرار دیا ۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض ارکان وقف بورڈ پر اپنا تسلط قائم کرچکے ہیں اور من مانی فیصلے کر رہے ہیں۔ عہدیدار ان سرگرمیوں کے آگے بے بس ہیں۔ اگر حکومت اہم درگاہوں کے کنٹراکٹ کو منسوخ کرتی ہے تو یہ بورڈ کے حق میں بہتر فیصلہ ہوگا۔ بتایا جاتا ہے کہ بعض ارکان حکومت کی تحقیقات کو روکنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور اپنے سیاسی آقاؤں کے ذریعہ حکومت پر دباؤ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔