وقف بورڈ کی کارکردگی بہتر بنانے میں حکومت کو دشواری

مقامی سیاسی جماعت کی مداخلت، اسپیشل آفیسر کی تبدیلی کیلئے دباؤ، عہدیداروں کا عدم تعاون
حیدرآباد۔/24جنوری، ( سیاست نیوز) تلنگانہ حکومت اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور ناجائز قبضوں کی برخاستگی میں اگرچہ سنجیدہ ہے لیکن مقامی سیاسی جماعت کے دباؤ کے تحت وہ اس سلسلہ میں کسی بھی جرأتمندانہ اقدام سے گریز کررہی ہے۔ گزشتہ 8ماہ کے دوران حکومت نے وقف بورڈ پر دیانتدار اور فرض شناس عہدیداروں کے تقرر کے ذریعہ کروڑہا روپئے مالیتی جائیدادوں کے تحفظ کی کوشش کی لیکن بورڈ کے کام کاج میں سیاسی مداخلت کے سبب حکومت کا مقصد پورا نہیں ہوپارہا ہے۔ حکومت میں شامل افراد نجی گفتگو میں اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ وقف بورڈ کے موجودہ نظام کو درست کرنے کیلئے کمشنریٹ کا قیام ناگزیر ہے تاہم اس تجویز کی مقامی سیاسی جماعت کی جانب سے مخالفت کی جارہی ہے تاکہ بورڈ پر تسلط برقرار رکھا جائے۔ اسپیشل آفیسر کی حیثیت سے شیخ محمد اقبال ( آئی پی ایس ) نے اہم جائیدادوں کے تحفظ کے سلسلہ میں جو قدم اٹھائے تھے ان کارروائیوں کو روکنے کیلئے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ موجودہ اسپیشل آفیسر جلال الدین اکبر ( آئی ایف ایس) نے سابقہ کارروائیوں کو جاری رکھنے کی کوشش کی اور بعض اہم جائیدادوں کے سلسلہ میں جرأتمندانہ فیصلے کئے جس سے ناراض ہوکر مقامی جماعت اپنی پسند کے عہدیدار کو اسپیشل آفیسر مقرر کرانے کیلئے حکومت سے رجوع ہوچکی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس جماعت نے چیف منسٹر کو بعض ایسے عہدیداروں کے نام پیش کئے جنہیں وہ اسپیشل آفیسر کے عہدہ پر دیکھنا چاہتی ہے اور وہ عہدیدار ان کی مرضی کے مطابق کام کرسکتے ہیں۔ جناب جلال الدین اکبر کو اسپیشل آفیسر وقف بورڈ کی زائد ذمہ داری دی گئی جس کی میعاد 6ماہ ہے۔ چھ ماہ کی میعاد فبروری کے دوسرے ہفتہ میں ختم ہوگی لیکن مقامی جماعت کی جانب سے چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ پر دباؤ بنایا جارہا ہے کہ وہ چھ ماہ سے قبل ہی نئے اسپیشل آفیسر کا تقرر کردیں۔ ایک مرحلہ پر حکومت نے آئی پی ایس عہدیدار تفسیر اقبال کو اسپیشل آفیسر نامزد کرنے کا من بنالیا تھا لیکن مقامی سیاسی جماعت نے اس نام کی سختی سے مخالفت کی اور ایک نان کیڈر عہدیدار کے نام کی سفارش کی۔ وقف بورڈ کی کارکردگی میں مبینہ بے قاعدگیوں سے کون واقف نہیں لیکن وہاں اپنا کنٹرول رکھنے والے عناصر اسی سسٹم کو جاری رکھنے کے خواہاں ہیں تاکہ اہم اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے سلسلہ میں شروع کی گئی کارروائیاں تھم جائیں۔ وقف بورڈ میں موجود بعض عہدیدار اور ملازمین کے مقامی جماعت سے گہرے روابط ہیں اور وہ ایسے عناصر سے بھی قربت رکھتے ہیں جن کی بے قاعدگیوں کے خلاف سابق اسپیشل آفیسر نے تحقیقات کرتے ہوئے مقدمات درج کئے تھے۔ کئی اہم معاملات میں وقف بورڈ عہدیداروں اور ملازمین کا رویہ اسپیشل آفیسر کے ساتھ عدم تعاون کا ہے۔ ناجائز قبضوں کی برخاستگی، کرایوں میں اضافہ، موجودہ قابضین کو وقف بورڈ کا کرایہ دار بنانے کی کوشش، عدالتوں میں زیر دوران مقدمات کی موثر پیروی، روزانہ وصول ہونے والی شکایات پر کارروائی اور فائیلوں کی عاجلانہ یکسوئی جیسے معاملات میں اسپیشل آفیسر کے ساتھ عملے کا رویہ عدم تعاون کا ہے جس کے باعث کئی ہم کارروائیاں ٹھپ ہوچکی ہیں۔ عدالتوں میں مقدمات کا جوابی حلف نامہ داخل کرنے میں تاخیر کی شکایت عام ہے اس کے علاوہ حلف نامے کمزور نوعیت کے ہیں جن سے قابضین کو فائدہ ہوسکتا ہے۔ ان خامیوں کو دور کرنے کیلئے اسپیشل آفیسر نے ریٹائرڈ ہائی کورٹ جج کی قیادت میں قانونی ماہرین کی کمیٹی تشکیل دی تاکہ حلف ناموں کے ادخال کے سلسلہ میں رہنمائی کی جاسکے۔ لیکن وقف بورڈ کا لیگل سیل اور اسٹینڈنگ کونسلس اس کمیٹی سے تعاون تو درکنار اُن سے رہنمائی حاصل کرنے تیار نہیں۔ حالیہ عرصہ میں کئی ایسے اہم انکشافات ہوئے ہیں جس میں اسپیشل آفیسر کی کارروائیوں کو روکنے کی کوشش کی گئی اور قابضین کے حق میں راہ ہموار کی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کسی بھی جائیداد سے متعلق ریکارڈ طلب کرنے کی صورت میں ماتحت عہدیدار اسپیشل آفیسر کو بھی حقیقی ریکارڈ سے تاریکی میں رکھ رہے ہیں۔ دراصل کئی برسوں سے وقف بورڈ میں خدمات انجام دینے والے ملازمین اور ان کے رشتہ داروں پر ذمہ داری اور جوابدہی کا کوئی سسٹم نہیں ہے جس کے باعث وہ من مانی انداز میں کام کررہے ہیں۔وقف بورڈ کی اس ابتر صورتحال اور دیانتدار اسپیشل آفیسر کی کارروائیوں میں رکاوٹ کو دیکھتے ہوئے اوقافی اُمور کے ماہرین نے حکومت سے نمائندگی کی کہ وقف بورڈ کیلئے باقاعدہ علحدہ کمشنریٹ تشکیل دیا جائے جو کسی آئی اے ایس یا آئی پی ایس عہدیدار کی نگرانی میں ہو۔ کمشنریٹ کے تحت اسسٹنٹ کمشنرس، ڈپٹی کمشنرس اور دیگر کیڈر کے ماتحت عہدیدار ہوتے ہیں جو سرکاری محکمہ جات اور اداروں کی طرح قواعد کے مطابق خدمات انجام دیتے ہیں۔ وقف بورڈ کی بہتری اور اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کیلئے کمشنریٹ کی تشکیل ہی واحد حل ہے۔