وقف بورڈ پر تلنگانہ حکومت کے فیصلہ پر حکومت آندھراپردیش کا اعتراض

بورڈ کی تقسیم ہنوز باقی، فیصلوں میں اے پی کو نظرانداز کرنے کا الزام، شیخ محمد اقبال اسپیشل سکریٹری اقلیتی بہبود اے پی کا ردعمل
حیدرآباد۔/9مئی، ( سیاست نیوز) آندھرا پردیش حکومت نے وقف بورڈ کے بارے میں تلنگانہ حکومت کی جانب سے کئے گئے فیصلوں پر سخت اعتراض کیا ہے۔ آندھرا پردیش کے اسپیشل سکریٹری اقلیتی بہبود شیخ محمد اقبال ( آئی پی ایس ) نے کہا کہ وقف بورڈ کی تقسیم کا عمل ابھی مکمل نہیں ہوا لیکن تلنگانہ حکومت اہم فیصلوں کے بارے میں آندھرا پردیش حکومت سے مشاورت سے گریز کررہی ہے۔ اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے شیخ محمد اقبال نے کہا کہ آندھرا پردیش تنظیم جدید قانون کے تحت شیڈول 10میں شامل اداروں کی تقسیم سے قبل کوئی بھی فیصلہ دونوں ریاستوں کے اتفاق رائے سے کیا جانا چاہیئے لیکن تلنگانہ حکومت نے حال ہی میں عہدیدار مجاز کے نام سے تقرر کے احکامات جاری کئے۔ ان احکامات کے سلسلہ میں آندھرا پردیش تنظیم جدید قانون کے جس سیکشن کا حوالہ دیا گیا وہ گمراہ کن ہے۔ انہوں نے کہا کہ آندھرا پردیش حکومت نے اسپیشل آفیسر کے تقرر کے خلاف ہائی کورٹ کے سنگل جج کے فیصلہ کو ڈیویژن بنچ پر چیلنج کرنے کیلئے تحریری طور پر درخواست کی لیکن افسوس کہ تلنگانہ حکومت ہائی کورٹ میں اپیل کے بجائے مزید قانونی پیچیدگیاں پیدا کررہی ہے۔ تلنگانہ حکومت کو چاہیئے تھا کہ وہ ڈیویژن بنچ پر اپیل پر توجہ دیتی برخلاف اس کے اُس نے یکطرفہ فیصلہ کرتے ہوئے مزید قانونی پیچیدگی پیدا کردی ہے۔ اس فیصلہ کے خلاف کوئی بھی عدالت سے رجوع ہوسکتا ہے۔ شیخ محمد اقبال نے کہا کہ تلنگانہ حکومت نے یکطرفہ فیصلوں کے ذریعہ غیر مجاز قابضین اور اوقافی جائیدادوں کے مافیا کیلئے سہولتیں فراہم کردی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 24مارچ سے وقف بورڈ میں اسپیشل آفیسر موجود نہیں لیکن تلنگانہ حکومت نے آج تک اس تعطل کو ختم کرنے کی سنجیدگی سے کوشش نہیں کی۔ اسپیشل آفیسر کی عدم موجودگی کے سبب جو خلاء پیدا ہوا ہے اس کا وقف مافیا بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوششش کررہا ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ وقف بورڈ میں جلال الدین اکبر کے تقرر کے حق میں ہیں لیکن حکومت کو چاہیئے تھا کہ وہ قواعد کے مطابق کارروائی کرتی تاکہ احکامات کو عدالت میں چیلنج کرنے کی گنجائش نہ ہو۔ انہوں نے بتایا کہ وقف بورڈ کی تقسیم کے سلسلہ میں مرکزی حکومت نے دونوں ریاستوں سے تجاویز طلب کی تھیں اور آندھرا پردیش حکومت نے 28اپریل کو اپنی تجاویز روانہ کردیں جبکہ تلنگانہ حکومت تاخیر سے کام لے رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ تلنگانہ حکومت کی یکطرفہ کارروائیوں سے آندھرا پردیش میں بھی وقف اُمور متاثر ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تنخواہوں کی اجرائی میں تاخیر کے سبب وقف بورڈ میں جو صورتحال پیدا ہوئی اسے ٹالا جاسکتا تھا۔ جس طرح مارچ کی تنخواہ ادا کی گئی اسی انداز میں چیف ایکزیکیٹو آفیسر کو تنخواہوں کی اجرائی کا اختیار دیا جاسکتا تھا بجائے اس کے حکومت نے عہدیدار مجاز کے سلسلہ میں احکامات جاری کردیئے۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ہائی کورٹ کے ڈیویژن بنچ سے ریلیو حاصل کرتے ہوئے باقاعدہ اسپیشل آفیسر کا تقرر کیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ چندی گڑھ میں کئی برسوں سے وقف بورڈ پر اڈمنسٹریٹر موجود ہے جسے یہاں اسپیشل آفیسر کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ چند ماہ کے دوران اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور غیر مجاز قابض افراد کے خلاف جو کارروائیاں کی گئی تھیں وہ وقف بورڈ میں تعطل کے سبب ٹھپ ہوچکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ حکومت کو کوئی بھی فیصلہ ایسا نہیں کرنا چاہیئے جس سے غیر مجاز قابضین کو مدد ملے۔ انہوں نے بتایا کہ آندھرا پردیش حکومت اوقافی جائیدادوں کی ترقی کے ذریعہ اس کی آمدنی اقلیتی بہبود پر خرچ کرنا چاہتی ہے۔ اہم مقامات پر اوقافی اراضیات کو مکمل شفافیت کے ساتھ خانگی شعبہ کو لیز پر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اوقافی جائیدادیں اقلیتوں کی ترقی میں اہم رول ادا کرسکتی ہیں بشرطیکہ ان کا تحفظ ہو اور ان کی آمدنی کا صحیح استعمال ہو۔ایک سوال کے جواب میں شیخ محمد اقبال نے کہا کہ آندھرا پردیش حکومت نے وقف بورڈ میں سہ رکنی کمیٹی کی تشکیل سے متعلق کسی بھی کوشش کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے تلنگانہ کو مکتوب روانہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ میں سہ رکنی کمیٹی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ شیخ محمد اقبال نے بتایا کہ تلنگانہ حکومت کے حالیہ فیصلوں کے بارے میں مرکزی حکومت اور سنٹرل وقف کونسل کو واقف کیا جاچکا ہے۔