وقف بورڈ میں سہ رکنی کمیٹی کے قیام کے لیے وقف مافیا کی مساعی

اسپیشل آفیسر کی غیر موجودگی کا ناجائز فائدہ ، سیاسی عناصر بورڈ پر کنٹرول حاصل کرنے کوشاں
حیدرآباد ۔ 30 ۔ مارچ (سیاست نیوز) وقف بورڈ میں اسپیشل آفیسر کی غیر موجودگی کا فائدہ اٹھاکر بعض سیاسی عناصر بورڈ پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ وقف مافیا کی سرپرستی کرنے والے سیاسی قائدین تلنگانہ حکومت پر دباؤ بنا رہے ہیں کہ وہ وقف بورڈ کے امور کی نگرانی کے لئے اسپیشل آفیسر کے بجائے تین رکنی کمیٹی تشکیل دے۔ اس سلسلہ میں حکومت سے نمائندگی کی گئی جس کے بعد حکومت نے محکمہ اقلیتی بہبود سے اس سلسلہ میں رپورٹ طلب کی ہے۔ وقف بورڈ کے صدرنشین اور ارکان کی میعاد کے اختتام کے بعد سابق میں بھی تین رکنی کمیٹی کے قیام کی کوشش کی گئی تھی ۔ تاہم حکومت نے اسے منظور نہیں کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ حیدرآباد ہائی کورٹ کی جانب سے اسپیشل آفیسر کے تقرر کے احکامات کو معطل کئے جانے کے بعد سے تین رکنی کمیٹی کے قیام کی سرگرمیاں تیز ہوچکی ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے اس سلسلہ میں حکومت کو متعلقہ فائل روانہ کی گئی ہے اور کمیٹی کے قیام سے متعلق قطعی فیصلہ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کریں گے۔ وقف مافیا اور ان کی سرپرستی کرنے والے سیاسی قائدین ہرگز نہیں چاہتے کہ حکومت موجودہ اسپیشل آفیسر جلال الدین اکبر کو برقرار رکھے۔ انہوں نے اسپیشل آفیسر کی حیثیت سے ابتدائی 6 ماہ کی میعاد میں کئی اہم اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کو یقینی بنایا تھا ۔ اس کے علاوہ انہوں نے 70 تا 75 مقدمات درج کرتے ہوئے غیر مجاز قابضین کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ حکومت نے فروری میں ان کی میعاد میں مزید 6 ماہ کی توسیع کی جس کے بعد سے مخصوص سیاسی جماعت ان کے خلاف متحرک ہوچکی ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ نئے وقف ایکٹ 2013 ء کے تحت تین رکنی کمیٹی کے قیام کی کوئی گنجائش نہیں ۔ تاہم حکومت پر دباؤ بنایا جارہا ہے کہ وہ ان کی مرضی کے تین افراد پر مشتمل کمیٹی تشکیل دے جو وقف بورڈ کے امور کی نگرانی کرے۔ 1995 ء وقف ایکٹ کے بعد 2013 ء میں نیا وقف ایکٹ مدون کیا گیا جس میں تین رکنی کمیٹی کے قیام کا جواز موجود نہیں۔ وقف ایکٹ کے تحت عدم کارکردگی کی صورت میں حکومت کو بورڈ تحلیل کرنے اور اسپیشل آفیسر کے تقرر کا اختیار حاصل ہے ۔ ماہرین کے مطابق وقف ایکٹ میں تین رکنی کمیٹی کی کوئی گنجائش نہیں اور وقف بورڈ کی موجودہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوئی رہنمایانہ خطوط موجود نہیں۔ تاکہ ہائی کورٹ کی جانب سے اسپیشل آفیسر کے تقرر کو کالعدم قرار دینے کی صورت میں حکومت متبادل اقدام کرسکے۔ واضح رہے کہ ہائیکورٹ نے اسپیشل آفیسر کے تقرر سے متعلق جی او 73 کو عارضی طور پر معطل کیا ہے جبکہ حکومت نے اس جی او کو کالعدم کرتے ہوئے جی او 77 جاری کیا تھا۔ بعد میں اسے بھی کالعدم کیا گیا اور جی او نمبر 298 کے تحت اسپیشل آفیسر کو 6 ماہ کی میعاد کیلئے مقرر کیا گیا۔ وقف ایکٹ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت اگر چاہے تو وہ نئے جی او کے ذریعہ اسپیشل آفیسر کی برقراری کے احکامات جاری کرسکتی ہے ۔ تاہم اس کا انحصار حکومت کی سنجیدگی پر ہے۔ ایک طرف حکومت ہائیکورٹ میں ایڈوکیٹ جنرل کے ذریعہ حکم التواء کی برخواستگی کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری طرف وقف بورڈ پر کنٹرول حاصل کرنے کے لئے حکومت کی تائید کرنے والی سیاسی جماعت سرگرم ہوچکی ہیں۔ تین رکنی کمیٹی کے قیام کے سلسلہ میں حکومت نے بھی ماہرین قانون سے رائے حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ سابق میں ایک مرتبہ اس طرح کی نگرانکار کمیٹی کی تشکیل کی مثال موجود ہے جس کی بنیاد پر نئی کمیٹی کے قیام کیلئے حکومت پر دباؤ بنایا جارہا ہے۔ حالانکہ موجودہ وقف ایکٹ میں کمیٹی کے قیام کی کوئی گنجائش نہیں۔ واضح رہے کہ 24 مارچ کو ہائیکورٹ کے فیصلہ کے بعد سے جلال الدین اکبر اسپیشل آفیسر وقف بورڈ کی ذمہ داریوں سے خود کو دور کرچکے ہیں۔ اسپیشل آفیسر کی عدم موجودگی کے سبب وقف بورڈ کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔ چیف اگزیکیٹیو آفیسر کو اہم فیصلوں کے بارے میں اختیارات حاصل نہیں۔ مالیاتی امور کے سلسلہ میں بھی سی ای او کو صرف 10,000 روپئے کی منظوری کا اختیار حاصل ہے جبکہ اس سے زائد رقم کے لئے اسپیشل آفیسر کی منظوری ضروری ہے۔ گزشتہ ایک ہفتہ سے وقف بورڈ کی سرگرمیاں عملاً ٹھپ ہوچکی ہیں۔