!وقف بورڈ میں جعلی کرنسی کا چلن

بے قاعدگیوں و بدعنوانیوں کے بعد ایک اور سنسنی خیز انکشاف
حیدرآباد 5 اگسٹ (سیاست نیوز) وقف بورڈ میں بے قاعدگیاں یوں تو معمول کی بات ہے لیکن اب جعلی کرنسی کے چلن کی اطلاعات نے سنسنی دوڑا دی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وقف بورڈ کے دارالقضاء ت میں جعلی کرنسی جمع کی جارہی ہے اور اِس بارے میں اعلیٰ عہدیداروں کو شکایت کرنے کے بجائے قضأت کے ملازمین جعلی کرنسی عام لوگوں کو جاری کرتے ہوئے اُسے مزید پھیلارہے ہیں۔ ابتدائی تحقیقات کے بعد پتہ چلا کہ جعلی کرنسی کو عام کرنے میں بروکرس اور وقف بورڈ کے بعض ملازمین کا ہاتھ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ قضأت سے نکاح، طلاق، تبدیلیٔ مذہب اور دیگر سرٹیفکٹس حاصل کرنے کے لئے روزانہ سینکڑوں افراد رجوع ہوتے ہیں اور وہ مقررہ فیس ادا کرتے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں یہ دیکھا گیا کہ داخل کی گئی رقم میں بعض جعلی نوٹ شامل ہیں۔ یہ نوٹ 50 ، 100 ،500  اور 1000 روپئے کے ہوتے ہیں جن کے بارے میں قضاء ت کے ملازمین جان کر بھی انجان ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وقف بورڈ کی جانب سے اِس سیکشن کو نوٹوں کی اصلیت کا پتہ چلانے والی مشین فراہم کی جاتی تاکہ جعلی نوٹوں کے چلن کو روکا جاسکے۔ تاہم حکام کو اِس سے کوئی دلچسپی نہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ قضاء ت میں روزانہ کم سے کم ایک لاکھ روپئے کا کلکشن ہوتا ہے اور بسا اوقات یہ ایک لاکھ 30 ہزار تک پہونچ جاتا ہے۔ متعلقہ کیاشیر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اِس رقم کو اکاؤنٹس سیکشن میں جمع کردے۔ جب کبھی اِس طرح جعلی نوٹوں کا پتہ چلا تو قضاء ت کے ملازمین نے اعلیٰ عہدیداروں کو اِس کی اطلاع کرنے یا بینک سے رجوع کرنے کے بجائے دیگر درخواست گذاروں کو خاموشی سے یہ نوٹ جاری کردیئے۔ شبہ کیا جارہا ہے کہ جعلی نوٹوں کا یہ ریاکٹ طویل عرصہ سے سرگرم ہے جس میں قضاء ت کے بروکرس اور چند ملازمین ملوث ہیں جو جعلی نوٹوں کو وقف بورڈ کے اکاؤنٹ میں جمع کررہے ہیں۔ وقف بورڈ میں یہ اسکام کوئی تعجب کی بات نہیں کیوں کہ اِس ادارہ میں ہر قدم پر بے قاعدگیاں اور بدعنوانیاں عام بات ہیں۔ دارالقضاء ت پر بورڈ کا کوئی کنٹرول نہیں جس کے نتیجہ میں وہاں اس طرح کی غیر قانونی سرگرمیاں نقطہ عروج پر پہونچ چکی ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کرنسی نوٹوں کی جانچ کے متعلق مشین کی خریدی کے لئے جب متعلقہ حکام کی توجہ مبذول کرائی گئی تو اُنھوں نے اِس تجویز کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ فی الوقت اس کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر اسی طرح کی صورتحال رہی تو اندیشہ ہے کہ وقف بورڈ میں جعلی کرنسی کا ریاکٹ اپنی جڑیں مضبوط کرلے گا۔ وقف بورڈ کے ذمہ داروں کو چاہئے کہ وہ اِس سیکشن پر خصوصی نظر رکھیں اور سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرتے ہوئے غیر قانونی سرگرمیوں کی سرکوبی کریں۔ دارالقضاء ت سے رجوع ہونے والے افراد نے شکایت کی ہے کہ زائد رقم کی ادائیگی تک اُنھیں سرٹیفکٹ جاری نہیں کیا جاتا۔ عام آدمی دو تا تین گھنٹے قطار میں کھڑا ہونے پر مجبور ہے جبکہ بروکرس کے کام منٹوں میں انجام دیئے جاتے ہیں۔ اِسی مسئلہ پر کل دارالقضاء ت میں درخواست گذاروں اور ملازمین میں جھڑپ ہوگئی۔ بتایا جاتا ہے کہ دارالقضاء ت کی سرگرمیوں کے بارے میں چیف ایگزیکٹیو آفیسر اور عہدیدار مجاز سے شکایت کے باوجود اِس سیکشن کو کھلی چھوٹ دی گئی ہے جس کا نتیجہ جعلی نوٹوں کے چلن کی صورت میں سامنے آیا ہے۔