کئی اہم فائیلوںکی خفیہ یکسوئی، شکایتیں برفدان کی نذر، تحقیقات پر بڑا اسکام منظر پر آنا یقینی
حیدرآباد۔/2اگسٹ، ( سیاست نیوز) اقلیتی اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے کے سلسلہ میں حکومتوں کے دعوے برقرار ہیں لیکن دوسری جانب عہدیداروں کی کمی اور اقلیتی اداروں کی عدم نگرانی کے باعث کارکردگی بُری طرح متاثر ہوئی ہے۔ چیف منسٹر چندر شیکھر راؤ نے اقلیتی اداروں کی بہتر نگرانی کیلئے اقلیتی بہبود کا قلمدان اپنے پاس رکھا جس کے نتیجہ میں ان اداروں میں جواب دہی کا احساس ختم ہوچکا ہے خاص طور پر وقف بورڈ کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ گذشتہ دیڑھ ماہ سے وقف بورڈ کے اسپیشل آفیسر کا عہدہ خالی ہے اور 10ماہ سے وقف ٹریبونل پر کسی جج کا تقرر نہیں کیا گیا۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاکر بورڈ میں اوقافی جائیدادوں کو لیکر زبردست سودے بازی اور رشوت کا بازار گرم ہے۔ درمیانی افراد اور عہدیداروں کی ملی بھگت کے باعث روزانہ کئی اہم فائیلوں اور معاملات کی خفیہ طور پر یکسوئی کی جارہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وقف بورڈ کے بعض ملازمین جو درمیانی افراد کا رول انجام دیتے ہیں ان کے ذریعہ کئی اہم اوقافی جائیدادوں کے این او سیز اور دیگر معاملات طئے کئے جارہے ہیں۔ اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے سلسلہ میں جب کوئی شخص رجوع ہوتا ہے تو اس کی سنوائی کرنے والا کوئی نہیں۔ برخلاف اس کے قابضین سے ملی بھگت کے باعث حکام انہیں تعمیرات کی خفیہ طور پر اجازت دے رہے ہیں اور شکایتوں کو برفدان کی نذر کیا جارہا ہے۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ گذشتہ دیڑھ ماہ سے وقف بورڈ میں عملاً جنگل راج چل رہا ہے اور رشوت خور، بدعنوان افراد بھاری رقومات کے بل پر من مانی منظوریاں حاصل کررہے ہیں۔ اگر گذشتہ دیڑھ ماہ کے دوران بورڈ کی جانب سے جاری کئے گئے این او سیز اور دیگر فیصلوں کی تحقیقات کی جائیں تو یقیناً ایک بڑا اسکام منظرِ عام پر آسکتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ کئی متاثرہ افراد نے اس سلسلہ میں اعلیٰ عہدیداروں کو واقف کرایا تاہم وہ ان معاملات کو حکومت سے رجوع کرنے کے سوا کچھ نہ کرسکے۔ سابق اسپیشل آفیسر شیخ محمد اقبال کے دور میں ناجائز قابضین کے خلاف جس طرح کارروائیاں کی گئیں ان کے تبادلہ کے ساتھ ہی ان کارروائیوں کو روک دیا گیا حتیٰ کہ پولیس تحقیقات اور محکمہ جاتی تحقیقات کی رفتار بھی سُست کردی گئی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ وقف بورڈ کے بعض عہدیدار پولیس تحقیقات میں تعاون سے گریز کررہے ہیں۔ بورڈ کے ایک باوثوق ذرائع نے بتایا کہ بعض وظیفے پر سبکدوش ملازمین اور سابق عہدیدار ابھی بھی بورڈ میں ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں۔ وقف اراضی کے اعتبار سے کسی بھی ادارہ کو این او سی کی اجرائی کیلئے رقم کا تعین کیا جاتا ہے اور ایک NOCکیلئے کم سے کم 3تا5لاکھ روپئے وصول کئے جارہے ہیں۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ حکومت نے وقف بورڈ کو جوڈیشیل اختیارات دینے کا وعدہ کیا لیکن ابھی تک اس سلسلہ میں کوئی احکامات جاری نہیں کئے گئے۔ منتخبہ بورڈ کی عدم موجودگی اور اسپیشل آفیسر کے عدم تقرر کے علاوہ وقف ٹریبونل پر مستقل جج مقرر نہ کیا جانا ایسی وجوہات ہیں جن کا فائدہ راست طور پر بدعنوان عہدیداروں اور ایجنٹس کو ہورہا ہے۔ وقف ٹریبونل کی عدم موجودگی کے باعث کسی بھی وقف جائیداد پر قبضہ یا تعمیرات کے سلسلہ میں کوئی بھی شخص ٹریبونل سے رجوع ہوسکتا تھا۔ اب اگر کوئی شخص ہائی کورٹ سے وقف معاملات میں رجوع ہوتا ہے تو ہائی کورٹ اسے ٹریبونل سے رجوع ہونے کا مشورہ دے رہا ہے۔ ان حالات میں اوقافی جائیدادوں کو مزید خطرہ لاحق ہوچکا ہے۔ آندھرا پردیش کی تقسیم اور دو نئی ریاستوں کی تشکیل کے بعد نظم و نسق میں جاری تعطل کی صورتحال کا فائدہ اٹھاکر وقف بورڈ میں من مانی جاری ہے۔ موجودہ چیف ایکزیکیٹو آفیسر جنہوں نے کسی طرح اپنا تبادلہ کرالیا لیکن متبادل نہ ہونے کی وجہ سے محکمہ انہیں ریلیو کرنے سے قاصر ہے۔ وقف بورڈ میں مختلف اہم اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کے سلسلہ میں رجوع ہونے والے افراد نے شکایت کی کہ اسپیشل آفیسر کے تبادلہ کے بعد ان کی سماعت کرنے والا کوئی نہیں۔ ان افراد نے گذشتہ دیڑھ ماہ کے دوران وقف بورڈ کی جانب سے جاری کردہ این او سیز، کمیٹیوں کے تقرر دیگر فیصلوں کی جامع تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ عوام نے مزید شکایت کی کہ درمیانی افراد دفتر کے اوقات کے بعد رات دیر گئے تک عہدیداروں کے ساتھ بیٹھ کر اپنے معاملات طئے کررہے ہیں اور فائیلوں کی یکسوئی اور ریکارڈ میں اُلٹ پھیر جیسی دھاندلیوں کا ارتکاب کیا جارہا ہے۔اسی دوران حکومت نے آئی ایف ایس عہدیدار جلال الدین اکبر کو اسپیشل آفیسر وقف بورڈ اور ڈائرکٹر اقلیتی بہبود مقرر کیا ہے۔ ان کے تقرر کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ بورڈ میں جاری بے قاعدگیوں پر روک لگے گی۔