وقف بورڈ بحران کو حل کرنے ڈپٹی چیف منسٹر کی مداخلت

سکریٹری اقلیتی بہبودکو اقدامات کرنے کی ہدایت ، 500 سے زائد فائیلس التواء کا شکار
حیدرآباد۔/29 جولائی، ( سیاست نیوز) تلنگانہ وقف بورڈ میں جاری بحران کے حل کیلئے ڈپٹی چیف منسٹر محمد محمود علی کو آخر کار مداخلت کرنی پڑی۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈپٹی چیف منسٹر نے سکریٹری اقلیتی بہبود عمر جلیل کو ہدایت دی کہ وہ اس بحران کے حل کے اقدامات کریں۔ انہوں نے سکریٹری سے کہا کہ وہ رخصت پر جانے والے چیف ایکزیکیٹو آفیسر محمد اسد اللہ سے ربط قائم کرتے ہوئے انہیں ڈیوٹی پر رجوع ہونے کیلئے راضی کرلیں۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ محمد اسد اللہ 15 یوم کی رخصت میں مزید توسیع نہ کرتے ہوئے رجوع ہوجائیں گے۔ گذشتہ 15دن سے وقف بورڈ بحران کا شکار ہے کیونکہ یہ ادارہ چیف ایکزیکیٹو آفیسر کے بغیر چل رہا تھا اور اس کی سرگرمیاں ٹھپ ہوچکی تھیں۔ عہدیداروں اور سیاسی دباؤ سے عاجز آکر محمد اسد اللہ نے رخصت حاصل کرلی تھی۔ حکومت نے ان کے غیاب میں پروفیسر ایس اے شکور کو زائد ذمہ داری دینے کا فیصلہ کیا لیکن انہوں نے حج کیمپ کی سرگرمیوں کے آغاز کے پیش نظر ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا۔ سکریٹری اقلیتی بہبود جو وقف بورڈ کے عہدیدار مجاز بھی ہیں وہ اگرچہ چیف ایکزیکیٹو آفیسر کی زائد ذمہ داری نبھا سکتے تھے لیکن انہوں نے حکومت پر یہ معاملہ چھوڑ دیا کہ وہ کسی عہدیدار کو فراہم کرے تاکہ انہیں یہ ذمہ داری دی جاسکے۔ چیف ایکزیکیٹو آفیسر کی عدم موجودگی میں وقف بورڈ کا ہر شعبہ بری طرح متاثر ہوا اور کئی اہم فائیلوں کے علاوہ روز مرہ سے متعلق فائیلیں بھی التواء کا شکار ہوگئیں ۔ بتایا جاتا ہے کہ گذشتہ 15 دن میں مجموعی طور پر 500سے زائد فائیلیں جمع ہوچکی ہیں جنہیں ترجیحی بنیادوں پر یکسوئی کی جانی ہے۔ اس قدر طویل عرصہ تک وقف بورڈ میں عہدیدار کے بغیر بحران کی صورتحال سابق میں نہیں رہی۔ بتایا جاتا ہے کہ سکریٹری اقلیتی بہبود نے موجودہ صورتحال کو کسی طرح جاری رکھنے کو ترجیح دی جبکہ ڈپٹی چیف منسٹر نے بعض مسلم عہدیداروں سے ربط قائم کرتے ہوئے وقف بورڈ میں خدمات انجام دینے کا مشورہ دیا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق گذشتہ دو ہفتوں کے دوران اگرچہ چیف ایکزیکیٹو آفیسر کی کرسی خالی رہی لیکن عہدیدار مجاز سکریٹریٹ میں بیٹھ کر وقف بورڈ پر کنٹرول کرتے رہے۔ انہوں نے اپنے قریبی شخص کے ذریعہ وقف بورڈ کے اُمور پر نگرانی کا کام انجام دیا اور بعض ضروری فائیلوں کی یکسوئی کی بھی اطلاعات ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وقف بورڈ کے ایک شعبہ کے انچارج کا شمار سکریٹری کے اسکولی ساتھیوں میں ہوتا ہے اور اس قربت کا فائدہ اٹھاکر وہ ماورائے دستور اتھارٹی کا رول ادا کررہے ہیں اور وہ تمام ملازمین کیلئے خوف کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ وقف بورڈ کے ذرائع نے بتایا کہ سکریٹری سے قربت رکھنے والے اس عہدیدار نے گذشتہ دو ہفتوں میں عملاً سارا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا اور وہ سیاہ و سفید کے مالک بن چکے تھے۔ کوئی بھی ان کی سرگرمیوں کے بارے میں تبصرہ تک نہیں کرسکتا کیونکہ وہ سکریٹری کے ذریعہ اس کے خلاف بآسانی کارروائی کرسکتے ہیں۔ اس صورتحال میں بتایا جاتا ہے کہ عہدیدار مجاز کو اپنے ضروری اُمور کی انجام دہی میں چیف ایکزیکیٹو آفیسر کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے انچارج عہدیدار کے تقرر میں کوئی خاص دلچسپی نہیں لی۔ وقف بورڈ کے ملازمین میں یہ بات مشہورہے کہ سکریٹری کے نمائندہ نے حج ہاوز میں ذیلی دفتر قائم کرلیا ہے جس سے وہ یہاں کی سرگرمیوں پر کنٹرول کررہے ہیں۔ ہر اقلیتی ادارہ میں اعلیٰ عہدیدار نے اپنے قریبی افراد کو مکمل آزادی دے رکھی ہے اور حالیہ دنوں میں اقلیتی فینانس کارپوریشن اور اقامتی اسکولس کی سوسائٹی میں سکریٹری سے قربت رکھنے والوں کی من مانی اور انہیں دی گئی مراعات سے ہر کوئی واقف ہے۔