وقف املاک پر ناجائز قبضے برخاست کرنے پرسنل لا بورڈ کا مطالبہ

نئی دہلی ۔ 29 ۔ جنوری (پریس ریلیز) آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ نے وزیر اعظم شری منموہن سنگھ اور صدر نشین یو۔پی۔ اے مسز سونیاگاندھی سے کہا ہے کہ پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں فرقہ وارانہ تشدد کے انسداد کا بل پیش کرکے منظور کروایا جائے جناب محمد عبدالرحیم قریشی اسسٹنٹ جنرل سکریٹری آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ نے کہا کہ کانگریس اور اس کی اتحادی پارٹیوں نے وعدہ کیا تھا کہ مخالف مسلم اور مخالف اقلیت فرقہ وارانہ تشدد کے سدباب اور روک تھام کے لئے موثر قانون سازی کی جائے گی مگر 2005ء سے ایسے قانون کے صرف مسودے یعنی بلس ہی بنتے رہے ہیں اس کے سوا کچھ نہیں کیا گیا۔ ۲۰۱۱ء میں مسزسونیا گاندھی کی صدارت میں قائم ایڈوائزری کونسل نے ایک مسودہ مرتب کیا جس میں فرقہ وارانہ منافرت و کشیدگی اور فسادات کی روک تھام کی ذمہ داری عہد یداران ضلع وعہدیداران پولیس پر عائد کرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ صورتحال پر نظر رکھے گی مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کی سرکاری مشنری کو ذمہ داری دی گئی۔ اس بل کی بی۔جے۔پی اور آر۔ایس۔ایس کی دیگر جماعتوں کی مخالفت سے موجودہ حکومت اتنی خائف ہوگئی کہ اس کو پارلیمنٹ میں پیش ہی نہیں کیا۔

جناب محمد عبدالرحیم قریشی نے کہا کہ مظفر نگر اور شاملی اضلاع کے ہلاکت خیز اور تباہ کن فسادات اور عام انتخابات کے قریب مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت کے فروغ اور فسادات کروانے کے امکانات نے فرقہ وارانہ تشدد کی روک تھام کا مؤثر قانون بنانے کی ضرورت بڑھادیے ہیں۔ یہ مطالبہ آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ کا اور ملک کے ہر اس شہری اور ہر اس طبقہ کا ہے جس کو ملک کی فرقہ وارانہ آہنگی اورسا لمیت اور استحکام عزیز ہے۔ آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ سے یہ وعدہ کیا گیا تھا اور مرکزی وزیر اقلیتی بہبود کے ۔رحمن خان صاحب نے تیقن دیا تھا کہ قانون وقف میں ترمیمات کی بل کے ساتھ اوقاف کی جائیداد پر ناجائز قبضوں کی برخواستگی اور قابضین کے انخلاء کا قانون منظور کروایا جائے گا لیکن اب تک اس سلسلہ میں کوئی قدم نہیں اُٹھایا گیا اور وقف کے ترمیماتی قانون میں ایسی دفعات رکھی گئیں جو شریعت سے ٹکراتی ہیں جیسے متولی کے تقرر کے لئے سرکاری قواعد کی شرائط کی تکمیل ضروری قراردی گئی ہے۔

یہ شریعت میں مداخلت ہے کیونکہ شریعت میں واقف یا وقف نامہ میں یا عمل درآمد سے متعینہ شرائط پراترنے کو ہی لازم قرار دیا گیا۔اس طرح کی کئی اور دفعات ہیں جو قابل اعتراض ہیں اور جن سے شریعت میں مداخلت بھی ہوتی ہے اس لئے آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کا یہ مطالبہ ہے کہ پارلیمنٹ کے آنے والے اجلاس میں وقف پر ناجائز قبضوں کی برخاستگی کا قانون منظور کروایا جائے اور وقف ترمیمی قانون کی دفعات میں مزید ترمیمات کی جائیں۔ ملک کی سیکولر سیاسی جماعتوں کویہ محسوس کرنا چاہیے کہ مسلم اقلیت کی اور اب عیسائی اقلیت کی سب سے شدید شکایت یہ ہے کہ ان کے خلاف برپاکئے جانے والے تشدد کو روکنے کے تعلق سے آج تک اس پرسنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا ہے جس کی شدید ضرورت ہے اور مسلمان یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے اوقاف کو تباہی وبربادی سے بچانے کی بجائے قانون ہی کمزور بنایا جاتا ہے اور ناجائز قبضوں کی برخاستگی کے لئے مضبوط قانون موجود نہیں ہے۔