وسطی افریقہ کے مسلمان نقل مکانی پر مجبور ، صورتحال سنگین

لندن ، 10 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) جمہوریہ وسطی افریقہ میں کئی ہفتوں سے جاری عیسائی ۔ مسلم فسادات پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا اور تازہ اطلاعات کے مطابق ان فسادات میں مزید دس افراد مارے گئے ہیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایک سینئر عہدیدار نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ وسطی افریقہ میں منظم طریقے سے مسلمانوں پر تشدد کر کے اُنھیں نقل مکانی پر مجبور کیا جا رہا ہے، اور وہ دن دور نہیں جب ملک سے مسلم اقلیت کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ اتوار کو مسلم آبادی پر حملوں کے خلاف تقریر کرنے والے ملک کی پارلیمان کے رکن جین ایمینوئل نجاروا کو بھی مسلح افراد نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ہیومن رائٹس واچ کے ڈائریکٹر پیٹر بوکارٹ نے برطانوی خبررساں ادارہ سے گفتگو میں مزید دس ہلاکتوں کی تصدیق کی اور بتایا کہ انھوں نے دارالحکومت بنگوئی میں خود اپنی آنکھوں سے ایک مسلمان کو قتل ہوتے دیکھا۔ ان کے مطابق یہ کارروائی اس علاقے میں مبینہ طور پر مسلم جنگجوؤں کی جانب سے چھ افراد کے قتل کے ردعمل میں کی گئی۔ وسطی افریقہ میں گزشتہ برس فوجی بغاوت کے بعد سے مسیحی اور مسلم آبادی برسرِپیکار ہے اور اب تک تیس ہزار مسلمان چاڈ، اور دس ہزار کیمرون کو نقل مکانی کرچکے ہیں۔ بوکارٹ کے مطابق وسطی افریقہ میں عیسائی۔ مسلم عداوت انتہا کو پہنچ چکی ہے اور وہ دن دور نہیں جب ملک سے مسلمانوں کا مکمل صفایا ہوجائے گا۔ ان کا کہنا ہے، ’’اب زیادہ تر تشدد عیسائیوں کی ملیشیا اینٹی بلاکا کی طرف سے ہو رہا ہے۔ وہ بڑے منظم طریقے سے مسلم آبادیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مسلمانوں کی ملیشیا سیلیکا بھی گھوم پھر رہی ہے۔ تاہم مسلم علاقے بالکل خالی ہوتے جا رہے ہیں‘‘۔ انھوں نے کہا: ’’میں بانگی کے سب سے بڑے تاجر سے ملا۔

اُس نے بتایا کہ اُس کے پاس کچھ نہیں بچا اور وہ بھی چاڈ نقل مکانی کرنے لگا ہے، جیسا کہ اُس سے پہلے دسیوں ہزاروں مسلمانوں نے کیا‘‘۔ براعظم افریقا کے غریب ترین ملکوں میں شامل وسطی افریقہ میں عیسائی۔ مسلم کشیدگی گزشتہ سال اُس وقت شروع ہوئی جب مسلمانوں کے باغی گروہ سیلیکا نے اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ پھر ملک میں پہلی بار مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے مشعل جِتودیا نے عبوری صدارت سنبھالی لیکن حالات بگڑنے پر گزشتہ ماہ وہ بھی عالمی برادری کے دباؤ پر مستعفی ہو گئے۔ دو ماہ سے جاری کشیدگی پر قابو پانے کیلئے فرانس اور افریقی یونین نے اپنے فوجی دستے وہاں بھیجے لیکن صورتحال سنگین ہوتی چلی گئی۔ خیراتی ادارہ ’ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز‘ کا بھی کہنا ہے کہ ملک میں تمام برادریاں تشدد کا نشانہ بنی ہیں لیکن اب مسلمانوں کو اجتماعی طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔