وسائل سے محروم شہناز تعلیم میں آگے

عام آدمی کی خاص بات
وسائل سے محروم شہناز تعلیم میں آگے
حیدرآباد ۔ 27 ۔ جون : ( نمائندہ خصوصی ) : پرانے شہر کے 50 سالہ قدیم اردو میڈیم اسکول جس کو عمدہ بازار ہائی اسکول کہا جاتا ہے ۔ یہاں 360 طلبہ وطالبات تعلیم حاصل کررہے ہیں ان ہی میں 16 سالہ شہناز بیگم بھی شامل ہے جو نہایت محنتی ، ذہین اور سمجھدار لڑکی ہے جس میں آگے بڑھنے کا شوق جنون کی حد تک ہے ۔ غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہے ۔ اس اسکول میں دسویں جماعت کی طالبہ ہے ہم نے آج اس لڑکی سے ملاقات کی تاکہ خوشحال گھرانوں کے بچوں کو بتایا جاسکے کس طرح غریب نادار اور مجبور لڑکیاں جن کے گھروں میں 3 وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے ملتی ہے ان کے بچے ان حالات میں بھی تعلیم حاصل کررہے ہیں ۔ شہناز بیگم کے والد 2 سال پہلے ایک ریل حادثہ میں فوت ہوگئے ۔ گویا سر سے سایہ اٹھ گیا ۔ تب سے یہ گھر سخت آزمائشی حالات سے نمٹ رہا ہے ۔ شہناز کی والدہ گھروں میں کام کرتی رہیں اور شہناز کے علاوہ تین بیٹوں کو بھی تعلیم دلا رہی ہیں ۔ اس کی رہائش شاد نگر میں ہے ۔ شہناز تعلیم حاصل کرنے کے لیے یہاں حیدرآباد میں اپنی دادی کے ساتھ رہتی ہے ۔ وہ اس سال دسویں جماعت میں ہے ۔ ان حالات کے باوجود اس پر عزم لڑکی میں یہ حوصلہ ہے کہ وہ اول نمبر آنے کی کوشش کرے گی ۔ اس نے کہا کہ اللہ نے چاہا تو میری محنت رنگ لائے گی ۔ اس نے اپنے ٹیچرس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ احمدی میڈم ، محمدی میڈم شمس میڈم تمام طالبات پر اچھی طرح توجہ دیتی ہیں ۔ اللہ سے امید ہے کہ وہ اچھے نمبرات سے کامیاب ہوجائے گی ۔ اس نے کہا کہ وہ آگے بھی اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتی ہے ۔ وہ ڈاکٹر بننا چاہتی ہے ۔ اتنا کہہ کر وہ خاموش ہوگئی ۔ اس خاموشی نے کئی دروازے کھول دئیے ۔ اہل فکر سوچ سکتے ہیں کہ شہناز بیگم کی خاموشی اس کی کیسی مجبوری ہے ۔ ایک شہناز کی بات نہیں ہمارے شہر میں ہزاروں لڑکیاں جو پڑھنا چاہتی ہیں ۔ آگے بڑھنا چاہتی ہیں لیکن غربت اور مجبوری ان کے خواہش کے پیروں میں بیڑیاں ڈال دیتی ہیں ۔ بس ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت کے ہمدرد اور دردمند دل رکھنے والے آگے بڑھیں تب ہی تو تعلیم کے میدان میں انقلاب آسکتا ہے ۔ صرف عمل سے آسکتی ہے ۔ ’ اللہ اگر توفیق نہ دے بندے کے بس کی بات نہیں ‘ خیر چھوڑئیے ان باتوں کو ۔ شہناز بیگم صوم و صلواۃ کی پابند ہیں ۔ نمازوں کے علاوہ قرآن حکیم کی تلاوت بھی کرتی ہیں اس نیک صفت لڑکی کو دودھ باولی سے اپنے اسکول چندو لال بازار آنا پڑتا ہے ۔ کسی سواری میں نہیں بلکہ پیدل چل کر آنے والی اس لڑکی کے بارے میں تمام ٹیچرس کی رائے ہے کہ وہ بے حد ہونہار ہے اس کی بات ہی کچھ اور ہے ۔ اپنی داستان الم سناتے ہوئے شہناز بیگم نے کہا کہ میری دادی چار گھروں میں کام کرتی ہے جس سے ہمارا گھر چلتا ہے ۔ تنگی ہوتی ہے مگر … پھر وہ خاموش ہوگئی ۔ آخر میں اس نے کہا کہ اسے کمپیوٹر سیکھنے کا شوق ہے ۔ چنانچہ وہ دسویں جماعت کامیاب کرنے کے بعد کمپیوٹر سیکھنا چاہتی ہے ۔ اس نے بتایا کہ اسکول والوں کو بھی امید ہے کہ وہ اس سال اول نمبر کامیاب ہوں گی اور اس لیے اس پر دباؤ بھی زیادہ ہے ۔ اب آئیے ان بچوں کی طرف جن کے گھروں کے سامنے آنے جانے کے لیے اسکول بس آجاتی ہے ۔ بڑی بڑی عمارتوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ ان بچوں کی مائیں دوپہر کا ٹفن بچوں کی پسند کے مطابق تیار کر کے دیتی ہیں ۔ زبردست فیس ادا کی جاتی ہے ہر اتوار کو سیر و تفریح کا بھی بندوبست ہوتا ہے ۔ سالانہ تعطیلات میں تو اور بھی مزے ہوتے ہیں لیکن ان سہولتوں کے باوجود ان بچوں کے رزلٹ ماں باپ کو مایوس کردیتے ہیں جو سوچنے لگتے ہیں کہ ہم نے بچوں کے لیے کیا کچھ نہیں کیا ۔ اتنے اچھے اسکول میں تعلیم دلائی جو مانگ کی اسکو پورا کیا لیکن اس کے بدلے میں بچوں نے ہمیں وہ نہیں دیا جو ہم چاہتے تھے ۔ ایسے لاپرواہ بچوں کیلئے شہناز بیگم ایک جیتی جاگتی مثال ہے ۔ کاش والدین اپنے بچوں کو بتائیں کہ دیکھو غربت ہرگز تعلیم کے راستے میں رکاوٹ نہیں ہے ۔ بس آگے بڑھنے کا شوق چاہئے ۔ آج کا دور Best کا نہیں ہے بلکہ Great کا ہے ۔۔ abuaimalazad@gmail.com