لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر ملکارجن کھڑگے نے کہا ہے کہ سی بی آئی سربراہ آلوک ورما کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے طلب کی گئی اعلیٰ اختیار یافتہ کمیٹی کی میٹنگ سے پہلے ہی وزیر اعظم طے کر چکے تھے کہ انھیں ہٹانا ہے۔ اتنا ہی نہیں ان کا بس چلتا تو وہ پہلے ہی دن آلوک ورما کو ہٹا دیتے۔
’نیشنل ہیرالڈ‘ سے ایکسکلوزیو بات چیت میں کھڑگے نے بتایا کہ کس طرح کمیٹی کی پہلی میٹنگ میں ہی پی ایم مودی جلد سے جلد آلوک ورما پر فیصلہ کرنا چاہتے تھے۔ لیکن جب کھڑگے نے کہا کہ کم از کم سی وی سی کی رپورٹ کو پڑھنے کا وقت تو ملنا چاہیے اور اس پر جسٹس اے کے سیکری نے اتفاق ظاہر کیا تو مجبوری میں پی ایم کو یہ بات ماننی پڑی، اور وہ اگلے دن پھر اس ایشو پر ملنے کے لیے تیار ہوئے۔
کھڑگے نے بتایا کہ سی وی سی کی رپورٹ 9 جنوری کو رات میں انھیں دی گئی۔ اس کے بعد 10 جنوری کو پھر سے اعلیٰ اختیار یافتہ کمیٹی وزیر اعظم رہائش پر شام 4 بجے ملی۔ اس میٹنگ میں کھڑگے نے کہا کہ آلوک ورما نے سی وی سی اور جانچ کی نگرانی کرنے والے جسٹس (ریٹائرڈ) اے کے پٹنایک کے سامنے جو بیان دیا ہے وہ بھی انھیں دیا جائے، لیکن اس سے انکار کر دیا گیا۔ کھڑگے کے مطابق ’’وزیر اعظم اور ان کے دفتر کے افسر اس بات کے لیے تیار ہی نہیں ہوئے کہ ورما نے سپریم کورٹ میں جو بیان دیا ہے، وہ بھی اعلیٰ اختیار یافتہ کمیٹی کی میٹنگ کے اراکین کے سامنے رکھا جائے۔‘‘
کھڑگے نے میٹنگ کے دوران رائے دی تھی کہ چونکہ آلوک ورما کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہوا، اس لیے انھیں ایک موقع مزید دیا جائے۔ لیکن وزیر اعظم اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ اس کی جگہ وزیر اعظم نے کہا کہ ورما نے ’غلطی کی ہے‘ اس لیے انھیں ہٹنا پڑے گا۔ جسٹس سیکری نے بھی پی ایم کی بات کی حمایت کی۔ ملکارجن کھڑگے کے مطابق ’’میں نے بار بار کہا کہ آلوک ورما کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں ہوا ہے، یہاں تک کہ سی وی سی نے بھی لکھا ہے کہ ورما پر لگائے گئے الزامات صحیح نہیں ہیں۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’جب رپورٹ ہی صاف نہیں ہے اور یکطرفہ ہے تو پھر اس پر بھروسہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟‘‘
ملکارجن کھڑگے کا کہنا ہے کہ یوں تو اس میٹنگ میں وزیر اعظم نریندر مودی کے علاوہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کے نمائندہ جسٹس اے کے سیکری اور انھیں ہی ہونا تھا، لیکن وزیر اعظم کے پرنسپل سکریٹری نرپیندر مشرا، وزیر اعظم دفتر میں وزارت برائے پرسونل کے ریاستی وزیر جتندر سنگھ کے علاوہ کئی ایڈیشنل سکریٹری بھی شامل تھے جو وزیر اعظم کی مدد کر رہے تھے۔ جب کہ جسٹس سیکری اور کھڑگے ہر بات کا خود ہی جواب دے رہے تھے۔
کھڑگے نے بتایا کہ ’’وہ ہر حال میں انھیں ہٹا کر پچھلے شخص کو ذمہ داری دینا چاہتے تھے۔ یہ تو ان کے دماغ میں پہلے سے طے تھا، لیکن پھر بھی انھوں نے نہیں بتایا کہ ورما کو ہٹانے کے بعد وہ کسے سی بی آئی کی ذمہ داری دیں گے۔‘‘ کھڑگے بتاتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ذریعہ ورما کو سی بی آئی میں بحال کرنے کے بعد سے وزیر اعظم دفتر کی بے چینی صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔
ملکارجن کھڑگے نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ان کا ارادہ اس فیصلہ پر کوئی عدم اتفاق کا خط لکھنے کا نہیں تھا اور وہ پہلے سے کوئی بھی خط لکھ کر نہیں لے گئے تھے۔ وہ تو صرف کچھ نوٹ لکھ کر لے گئے تھے جو میٹنگ میں بات چیت کے دوران کام آتے۔ لیکن تین گھنٹے چلی میٹنگ کے بعد انھیں لگا کہ عدم اتفاق کا نوٹ تو دینا ہی چاہیے۔ کھڑگے نے کہا کہ ’’وزیر اعظم کی بے چینی شاید اس لیے تھی کہ آلوک ورما رافیل معاہدہ کو لے کر کی گئی شکایت پر جانچ کرنا چاہتے تھے یا پھر کوئی دوسرا کیس ہے جو سی بی آئی کے پاس ہے۔ لیکن ایک بات تو صاف تھی کہ پی ایم او کسی بھی حال میں ورما کو سی بی آئی سے باہر کرنے پر آمادہ تھا۔‘‘
آلوک ورما کو اپنی بات کہنے کا موقع نہ دیے جانے پر افسوس ظاہر کرتے ہوئے کانگریس لیڈر نے کہا کہ اب یہ صاف ہو چکا ہے کہ سی وی سی کے وی چودھری نے آلوک ورما سے مل کر راکیش استھانہ کے حق میں دباؤ بنایا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ’’اگر آلوک ورما استھانہ کے خلاف کیا گیا تبصرہ واپس لے لیتے تو معاملہ وہیں حل ہو جاتا۔‘‘ یہ بات آلوک ورما نے جسٹس پٹنایک کو تحریری شکل میں بتائی تھی۔
کھڑگے نے کہا کہ ’’اس کا مطلب تو یہی ہے کہ سی وی سی جانبداری کر رہا تھا اور اس کی رپورٹ کو یک طرفہ ہی مانا جائے گا۔ ایسی رپورٹ کو سی بی آئی ڈائریکٹر کے خلاف کارروائی کی بنیاد کیسے بنایا جا سکتا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’مجھے لگتا ہے کہ پی ایم کسی بات کو لے کر اندیشہ میں تھے۔ انھیں کسی نہ کسی بات کا تو خوف تھا۔ میں نے یہ بات صاف محسوس کی جب بحالی کے ایک گھنٹے کے اندر ہی وہ آلوک ورما کو ہٹانا چاہتے تھے۔‘‘
کھڑگے نے اندیشہ ظاہر کیا کہ جب آلوک ورما نے راکیش استھانہ کے خلاف شکایت واپس لینے سے انکار کر دیا تو پی ایم او کو لگا ہوگا کہ کہیں آلوک ورما وزیر اعظم کے خلاف کوئی کارروائی نہ کر دیں اور اسی لیے جلد بازی میں انھیں ہٹا دیا گیا۔ کھڑگے نے کہا کہ ’’بدعنوانی کے خلاف لڑنے کا پی ایم کا دعویٰ بالکل غلط ہے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ لوک آیُکت ایکٹ 6 سال پہلے پاس ہو چکا ہے لیکن تقریباً پانچ سال سے اقتدار میں ہونے کے باوجود وزیر اعظم مودی اس قانون میں ترمیم کرنے کو تیار نہیں ہیں جس کے تحت لوک سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر کی جگہ لوک سبھا میں سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کے لیڈر کو سَرچ کمیٹی کا رکن بنایا جا سکے۔ اس کا مطلب ہے کہ آپ کی منشا ہی ٹھیک نہیں ہے۔‘‘
ملکارجن کھڑگے نے آلوک ورما معاملے میں وزیر اعظم نریندر مودی سے سی وی سی رپورٹ اور جسٹس پٹنایک کی رپورٹ برسرعام کیے جانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس معاملے پر منگل کو کھڑگے نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا ہے۔ خط میں انھوں نے کہا ہے کہ ’’سی وی سی کی جانچ رپورٹ، جسٹس اے کے پٹنایک کی جانچ رپورٹ اور سلیکٹ کمیٹی کی میٹنگ کی تفصیلات برسرعام کی جائے تاکہ لوگ اس معاملے میں نتیجہ پر پہنچ سکیں۔‘‘