وزیر اعظم مودی کی خاموشی

گذشتہ یو پی اے حکومت کے دور میں اکثر و بیشتر اس وقت کے وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کی مختلف مسائل پر خاموشی کو اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ۔ یہ حقیقت بھی تھی کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ اہم ترین اور سلگتے ہوئے مسائل پر کسی طرح کا اظہار خیال کرنے سے گریز ہی کیا کرتے تھے ۔ وہ شائد سال میں ایک دو بار میڈیا سے کھل کر بات کرتے تھے اور بعض مسائل پر انہوں نے اس وقت اظہار خیال کیا تھا جب وہ ملک میں نہیں تھے بلکہ بیرونی دورہ پر گئے ہوئے تھے ۔ خود کانگریس کے کچھ حلقوں میں یہ تاثر عام تھا کہ ڈاکٹر منموہن سنگھ اہم مسائل پر لب کشائی سے گریز کرتے ہیں اور ان کا یہ گریز عمدا ہے ۔ اپوزیشن جماعتیں ان کی خاموشی کو ریموٹ کنٹرول سے تعبیر کرتی تھیں۔ یہ جاتا تھا کہ وہ یو پی اے کی صدر نشین سونیا گاندھی سے اجازت کے بغیر لب کشائی نہیں کرتے ۔ اس مسئلہ کو لوک سبھا انتخابات کی مہم کے دوران بھی موضوع بحث بنایا گیا تھا ۔ تاہم اب سے مرکز میں این ڈی اے کی حکومت آئی ہے اس وقت سے یہ امید کی جا رہی تھی کہ وزیر اعظم کی کرسی پر براجمان نریندر مودی کم از کم ایسا نہیں کرینگے اور اہم مسائل پر وہ اپنا موقف واضح کرینگے تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا اور وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھ کر خاموش رہنے اور لب کشائی سے گریز کرنے کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ ڈاکٹر منموہن سنگھ کی طرح نریندر مودی بھی خاموشی کو ترجیح دینے لگے ہیں اور اہم ترین اور سلگتے ہوئے مسائل پر اظہار خیال کرنے سے انہیں بھی پس و پیش ہو رہا ہے ۔ کئی ایسے مسائل ہیں جن پر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ ملک کے عوام کو وزیر اعظم سے بھی کسی طرح کے اظہار خیال کی ضرورت محسوس ہوئی ہے لیکن منموہن سنگھ کی طرح نریندر مودی بھی خاموشی اختیار کرنے لگے ہیں۔ ان کی خاموشی سے ایسا تاثر ملتا ہے کہ وہ بھی لب کشائی کرتے ہوئے کسی طرح کے مسائل میں پھنسنا نہیں چاہتے اور اپنی کرسی پر براجمان رہتے ہوئے جو کچھ ہو رہا ہے اسے خاموشی سے دیکھتے رہنے ہی میں اپنی عافیت سمجھتے ہیں۔ گذشتہ چھ مہینے کے عرصہ میں ایسے بے شمار مسائل سامنے آئے جن پر وزیر اعظم سے بیان کی امید کی گئی تھی لیکن انہوں نے کسی بھی موقع پر لب کشائی کو ضروری نہیں سمجھا ۔

ایسے وقت میں جبکہ این ڈی اے کے اقتدار پر آنے کے بعد سے ملک کے حالات میں تبدیلیاں رونما ہوتی جا رہی ہیں اور فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوتا گیا ہے ۔ برسر اقتدار جماعت کے ارکان پارلیمنٹ اور وزرا تک کی جانب سے حساس نوعیت کے فرقہ وارانہ مسائل کو چھیڑا جا رہا ہے اور بیان بازیاں کی جا رہی ہیں لیکن وزیر اعظم ان پر کسی طرح کا رد عمل ظاہر کرنے کو تیار نہیں ہیں اور خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ دفتر وزیر اعظم کے وزیر نے حلف لینے کے فوری بعد یکساں سیول کوڈ کا مسئلہ چھیڑا ‘ کشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والے دفعہ 370 پر بحث شروع کی گئی ‘ آگرہ میں جبری مذہبی تبدیلی کا فتنہ رچا گیا اور آئندہ بھی ایسا کرنے کے اعلان کئے جا رہے ہیں ‘ مودی کابینہ کی ایک وزیر نے رام زادوں اور حرام زادوں جیسا ریمارک کیا ‘ ایک اور رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے ناتھو رام گوڈسے کو محب وطن قرار دیا اور ایک گوشے کی جانب سے رام مندر کی تعمیر کیلئے زبانی بیان بازیاں شروع کردی گئی ہیں ۔ یہ تمام انتہائی حساس نوعیت کے فرقہ وارانہ مسائل ہیں ۔ ان مسائل پر انتہائی غیر ذمہ داری کے ساتھ غیر سنجیدہ بیان بازیاں اور اشتعال انگیزیاں چل رہی ہیں اور پارلیمنٹ میں بھی ہنگامہ ہو رہا ہے ‘ اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ وزیر اعظم ان مسائل پر بیان دیں لیکن منموہن سنگھ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نریندر مودی نے بھی لب کشائی سے گریز ہی کیا ہوا ہے اور وہ کسی کو کسی طرح کی تلقین کرنے کو تیار نظر نہیں آتے ۔ ان کی خاموشی سے فرقہ وارانہ کشیدگی کے واقعات کو فروغ ہی ملتا جا رہا ہے ۔

ایسا لگتا ہے کہ نریندر مودی اپنی خاموشی کے ذریعہ فرقہ پرست طاقتوں کی بالواسطہ طور پر حوصلہ افزائی کرنا چاہتے ہیں اور فرقہ پرست تنظیموں اور ان کے ذمہ داروں کو یہ پیام دینا چاہتے ہیں کہ حکومت ان کی اشتعال انگیزیوں پر خاموشی ہی اختیار کریگی اور وہ جو چاہے کرتے رہیں۔ یہ ایک حکمت عملی بھی ہوسکتی ہے کہ وزیر اعظم خاموشی اختیار کرتے ہوئے اقلیتوں میں خوف و ہراسانی کا ماحول پیدا کریں اور انہیں ذہنی طور پر احساس کمتری کا شکار کرتے ہوئے فرقہ پرستانہ تنظیموں اور اداروں کو ان کے عزائم کی تکمیل کا موقع فراہم کیا جائے ۔ یہ حکمت عملی ہو یا پھر عمدا گریز ہو اس کا سلسلہ ختم ہونا چاہئے اور قوم کو درپیش اہم اور سلگتے ہوئے مسائل پر نریندر مودی کو اپنی خاموشی توڑتے ہوئے دستور و قوانین کے مطابق اپنے موقف کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔