وزیر اعظم اور خیالی اندیشے

دور جدید عمل کی کسوٹی کا دور ہے
باتوں سے دل بہلنے کے دن اب گذر گئے
وزیر اعظم اور خیالی اندیشے
وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک میں اقلیتوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کے تعلق سے پھر زبان کھولی ہے اور کہا کہ ان کی حکومت ذات پات ‘ رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر امتیاز میں یقین نہیں رکھتی اور اقلیتوں کے حقوق کے تعلق سے خیالی اندیشوں یا مفروضوں کی کوئی جگہ نہیں ہے ۔ وزیر اعظم نے ٹائم میگزین کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے یہ ریمارک کیا اور کہا کہ ملک میں جہاں کہیں کسی بھی فرد نے اپنے ذاتی خیالات کا اظہار کیا حکومت نے اس کی نفی کردی ہے ۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا حقیقت سے بعید ہے کہ ملک میں اقلیتوں اور ان کے حقوق کے تعلق سے اندیشے محض خیالی اور فرضی ہیں ۔ نہ صرف ہندوستان میں بلکہ امریکہ میں بھی ایجنسیوں نے اس حقیقت کو ظاہر کیا ہے کہ جب سے ملک میں نریندر مودی کی قیادت والی حکومت نے اقتدار سنبھالا ہے اس وقت سے ملک میں اقلیتوں کے خلاف پرتشدد حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ انہیں دھمکایا جارہا ہے اور ان میں احساس عدم تحفظ پیدا کیا جا رہا ہے ۔ مسلمانوں کو عیسائیوں کو جبرا یا پھر لالچ دیتے ہوئے مذہب تبدیل کروایا جا رہا ہے ۔ ان پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ۔ نہ صرف کچھ افراد بلکہ مرکزی حکومت میں شامل وزرا تک مسلمانوں اور بعض موقعوں پر عیسائیوں کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف ہیں ۔ عبادتگاہوں کو توڑ پھوڑ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ یہ دعوے کئے جا رہے ہیں کہ آئندہ کچھ برسوں میں ہندوستان میں مسلمانوں کا صفایا کردیا جائیگا اور ملک ہندو راشٹر میں تبدیل کردیا جائیگا ۔ ان سب کے باوجود مرکزی حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے ۔ ایک مرکزی وزیر نے عوامی جلسہ میں اعلان کیا کہ جو بی جے پی کو ووٹ دینگے وہ رام زادے اور جو بی جے پی کے خلاف ووٹ دینگے وہ حرام زادے ہیں۔ ان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے خود وزیر اعظم نے انہیں گاوں سے تعلق رکھنے والی خاتون قرار دیتے ہوئے دفاع کیا تھا ۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ یوگی آدتیہ ناتھ ہوں یا پھر آچاریہ گری راج سنگھ ہوں یہ سب مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے میں مصروف ہیں۔ کوئی ہندووں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی نصیحت کر رہا ہے تو کوئی مسلمانوں کو اس ملک میں دوسرے درجہ کا شہری بنانے میں کوئی کسر باقی رکھنے تیار نہیں ہے ۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب وزیر اعظم نے اس مسئلہ پر لب کشائی کی ہے ۔ اس سے قبل بھی انہوں نے یہ واضح کرنے کی کوشش کی تھی ملک میں اقلیتوں کے ساتھ امتیاز نہیں برتا جائیگا ۔ حکومت تمام طبقات کے حقوق اور مفادات کا تحفظ کریگی ۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے بھی ایک سے زائد موقعوں پر حکومت کے موقف کو واضح کرنے اور عوام کے ذہنوں میں اس کی شبیہہ کو بہتر بنانے کی کوشش کی تھی ۔ وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کے بیانات اور وضاحتوں کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ ملک میں اقلیتوں کے تعلق سے شر انگیز سازشوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ کہیں گھر واپسی کے نام پر منافرت پھیلائی جا رہی ہے تو کہیں لو جہاد کے ذریعہ سماج میں زہر گھولا جا رہا ہے ۔ کہیں چرچس پر حملے کئے جا رہے ہیں تو کہیں فجر کی اذان کو بند کروانے کا شر انگیز مطالبہ کیا جا رہا ہے ۔ ایسے واقعات کے باوجود حکومت اور خود وزیر اعظم یہ کہتے ہیں کہ یہ سب کچھ فرضی اندیشے ہیں یہ مضحکہ خیز ادعا ہے اور یہ در اصل ملک کے عوام اور بیرونی ایجنسیوں کو بھی گمراہ کرنے کی کوشش ہے ۔ ایک وزیر اعظم کو اس طرح کی غلط بیانی سے گریز کرنا چاہئے ۔ جہاں تک کچھ افراد کی زبان پر لگام کسنے کی بات ہے تو یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ خود بی جے پی کے ارکان پارلیمنٹ بھی وزیر اعظم یا وزیر داخلہ کی بیان بازیوں کو خاطر میں لانے تیار نہیں ہیں اور وہ سماج میں زہر افشانی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ فرقہ پرست تنظیمیں اپنے طور پر الگ سے سرگرم ہوگئی ہیں۔
وزیر اعظم نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ ملک میں ایک ہی مقدس کتاب ہے اور وہ دستور ہند ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کی وزیر خارجہ سشما سواراج مطالبہ کرتی ہیں کہ ملک میں بھگود گیتا کو قومی کتاب کا درجہ دیا جانا چاہئے اس کے باوجود ان کی نہ سرزنش کی جاتی ہے اور نہ ان کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کی جاتی ہے ۔ وزیر اعظم وقفہ وقفہ سے بیان بازی کرتے ہوئے شائد خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں لیکن انہیں سربراہ حکومت کی حیثیت میں اپنے قول و فعل کو یکساں بنانے کی ضرورت ہے ۔ ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کی جو کوششیں ہو رہی ہیں ان کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے محض زبانی جمع خرچ سے صورتحال بہتر ہونے والی نہیں ہے اور نہ ہی ایسی بیان بازیوں سے حکومت کی امیج یا شبیہہ بہتر ہوسکتی ہے ۔