وزیردفاع کا دورہ ٔوادی کشمیر

آگ بھی اس نے ہی لگائی ہے اور خود ہی بجھانے دوڑا ہے
دشمنی ہے کہ یہ ہے ہمدردی کچھ سمجھ میں ہمیں نہیں آتا
وزیردفاع کا دورہ ٔوادی کشمیر
وزیر دفاع ارون جیٹلی کے دورہ جموں و کشمیر اور وادی کے حالات پر کئے گئے تبصروں کو سیکوریٹی اور حکومت کی سطح پر لاحاصل متصور کئے جارہے ہیں۔ خط قبضہ پر پاکستان کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو روکنے کی ضرورت پر مور دینے والے وزیر دفاع نے کوئی حل یا راہ نہیں نکالی۔ ان کا الزام ہیکہ مرکز میں بی جے پی زیرقیادت حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے پاکستان نے چار بڑی جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کرچکا ہے۔ ارون جیٹلی جموں و کشمیر کا دورہ سیکوریٹی جائزہ لینے کیلئے کیا تھا۔ مسلح افواج کو دیئے گئے خصوصی اختیارات قانون کی تنسیخ پر ان کا تبصرہ بھی کوئی نیا نہیں ہے۔ ماضی کی حکومت نے بھی اس قانون کو برقرار رکھنے سے متعلق پس و پیش سے کام لیا تھا۔ وادی کشمیر میں مسلح افواج کو دیئے اختیارات کے خلاف پرزور احتجاج اور مظاہرے ہوچکے ہیں۔ فوج پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات بھی ہیں اور کئی فوجی جوانوں اور آفیسروں پر مقدمات چلائے جانے سخت سزائیں دینے کا مطالبہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ کشمیر کی صورتحال کے بارے میں ارون جیٹلی نے جب اظہارِاطمینان کیا ہے تو اس متنازعہ قانون کی تنسیخ کا فیصلہ کرنے میں کوئی دیر نہیں ہونی چاہئے۔ بی جے پی حکومت وادی کشمیر میں مستقل امن لانے کے ارادے سے سیکوریٹی صورتحال کو مؤثر بنانا چاہتی ہے تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو روکنے کیلئے حکومت کو متنازعہ قانون کی زیادتیوں کے بارے میں غور کرنا چاہئے۔ وزیر دفاع نے وادی کشمیر میں امن و امان کی صورتحال کو دیکھنے کے بعد ہی یہ پالیسی اعلان کیا کہ ان کی حکومت وادی میں کشمیری پنڈتوں کی باز آباد کاری اور ان کی واپسی کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ دہشت گردی کے بھڑک اٹھنے کے باعث وادی کشمیر سے کشمیری پنڈتوں کے تخلیہ سے کئی ایک سوال اٹھائے گئے ہیں لیکن اب وزیردفاع نے یہ تسلیم کیا ہیکہ وادی میں عام زندگی پرامن ہے اور عوام کی خوشحالی و ترقی کو فروغ حاصل ہورہا ہے تو اس کے لئے کشمیری عوام ہی مبارکباد کے مستق ہیں۔ اس ریاست میں جہاں سال کے اختتام پر اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں، مرکزی حکومت کو علاقائی مسائل اور عوامی ضروریات کا بھرپور خیال رکھتے ہوئے ریاستی حکومت سے مکمل تعاون کرنا ہوگا۔ وزیر دفاع کی کشمیر پنڈتوں کی باز آبادکاری پالیسی کا وادی کے تمام سیاسی پارٹیوں نے خیرمقدم کیا ہے لہٰذا مرکز کو اس سمت میں پہلی کرنے سے قبل وادی کے تمام حالات اور کیفیت کا جائزہ لے کر پرامن مقاصد کو مزید فروغ دینے چاہئے۔ بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کو صدر جمہوریہ کے پارلیمنٹ کے دونوں ایوان کے مشترکہ اجلاس سے کئے گئے خطاب میں ہی واضح کیا گیا ہے۔ وادی کشمیر سے تعلق بھی بی جے پی حکومت کی پالیسی واضح ہے تو کشمیری عوام کوایک پرامن ماحول فراہم کرنے کیساتھ پڑوسی ملکوں خاص کر پاکستان کے ساتھ دوستی کے اقدامات کو تیز کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ خطہ قبضہ پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا جہاں تک سوال ہے اس مسئلہ پر دونوں ملکوں کے فوجی سربراہوں اور اعتماد سازی کیلئے اب تک کئے گئے اقدامات کی روشنی میں پرامن حالات کو فروغ دینا چاہئے۔ ارون جیٹلی کے دورہ وادی کشمیر سے مقامی عوام کے اندر سلامتی کا احساس فروغ پاتا ہے تو یہ بہترین تبدیلی کہلائے گی۔ مرکز نے جموں و کشمیر کی ترقی کیلئے خصوصی کوششوں کی جانب توجہ دی ہے تو ریاست کی ہر ممکنہ مدد کرنا چاہئے۔ بی جے پی حکومت کو کشمیر کے تعلق سے سابق حکمرانوں کی غلطیوں اور نادانیوں سے پیدا ہونے والی راہ پر ہی چل کر فیصلے نہیں کرنا چاہئے کیونکہ ارون جیٹلی اور بی جے پی نے سابق میں اس وقت کے وزیراعظم منموہن سنگھ کو کمزور وزیراعظم قرار دیا تھا۔ خطہ قبضہ کے مسئلہ پر سابق حکمراں کی پالیسیوں کو بھی کمزور بتایا تھا۔ اب وہ خود وزیردفاع بھی تو انہیں ’’کمزور‘‘ کی اصطلاح سے ہٹ کر پرامن مقاصد کو بروئے کار لانے کی جانب اقدامات کرنے چاہئے۔ انہوں نے حاجی پیر علاقہ میں ایل او سی پر فوجی چوکیوں کا بذات خود معائنہ اور مشاہدہ کیا ہے اور ہند ۔ پاک سرحد پر ہندوستانی افواج کی چوکیس کی ستائش کی ہے تو پاکستان کی جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کا مسئلہ حل کرانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ یہ مسئلہ سفارتی سطح پر حل ہوسکتا ہے تو ہند ۔ پاک دوستانہ تعلقات کو فروغ دینے کیلئے وزیراعظم نریندر مودی کے حالیہ کوششوں کو تقویت دی جاسکتی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان خطوط نگاری کا سلسلہ بھی ایک مثبت تبدیلی ہے۔ ان خطوط کے علاوہ نواز شریف کے حالیہ دورہ ہندوستان اور دونوں ملکوں کے قائدین میں بات چیت اور نظریات کی جو مماثلت سامنے آئی ہے اس سے تعلقات، امن، دوستی اور تعاون کی بنیادیں مضبوط ہوں گی لہٰذا وزیردفاع کو بھی باہمی رشتوں کے ایک نئے باب کا آغاز کرنے کیلئے وادی کشمیر کی سلامتی صورتحال کو مثبت بنانے کی سمت قدم اٹھانے ہوں گے۔