زندگی تیری عطا ہے تو یہ جانے والا
تیری بخشش تیری دہلیز پہ دھر جائے گا
وزیراعظم کے لیبر اصلاحات
وزیراعظم نریندر مودی نے مہاراشٹرا اور ہریانہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی کی خبروں کے درمیان لیبر اصلاحات کا اعلان کیا ہے۔ وہ اپنے ہر جلسہ میں سچ بولنے کی عادت کا ادعا کرنے کا مظاہرہ کرکے عوام کو بھی سچ بولنے کی ترغیب دے رہے ہیں مگر اصل سچائی یہ ہیکہ عوام کا ذہن مکڑی کا جالا نہیں جو حکومتوں کی نااہلی اور عدم کارکردگی کو محسوس نہ کرسکیں۔ لیبر اصلاحات کے ذریعہ انسپکٹر راج ختم کرنے کا عزم رکھنے والے وزیراعظم کو ’’میک ان انڈیا‘‘ مہم میں کس حد تک کامیابی ملے گی یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ انہوں نے شرمیوے جیتے کے تحت متعدد اسکیمات کو قوم کے نام معنون کیا ہے۔ اس پروگرام میں ایمپلائمنٹ پراویڈنٹ فنڈ کیلئے یونیورسل اکاونٹ نمبر کے ذریعہ مزدوروں کی زندگیوں میں روشنی و خوشحالی لانے کا منصوبہ بنایا ہے۔ وزیراعظم اپنی حکومت کی کارکردگی کے مظاہرہ کے ذریعہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ انہوں نے انتخابی وعدہ کے مطابق اقل ترین حکومت اور اعظم ترین حکمرانی کا وعدہ پورا کیا ہے۔ اس لیبر اصلاحات سے توقع کی جارہی کہ اب سرکاری دفاتر میں عہدیداروں کا ہراساں رویہ ختم ہوگا اور انسپکٹر راج بھی دور ہوجائے گا تو اچھے دن آنے کا نعرہ عوام کیلئے صحیح ثابت ہوگا مگر مودی کے مخالفین کو اس پالیسی میں کئی خرابیاں نظر آئیں گی۔ عوام الناس کا ایک گوشہ نے لیبر اصلاحات ای گورننس کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس سے صنعتی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور غیر ضروری رکاوٹیں ہٹا دی جائیں گی۔ بلاشبہ اچھے کام کریں گے تو ہندوستان کو ترقی دینے میں مدد ملے گی۔ صنعتی پیداوار کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ درحقیقت آج ہر شعبہ میں ملازمین کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا جانا ضروری ہے لیکن سنجیدہ و حقیقی محنت کش ہی بھلائی کا مستحق ہے۔ بعض صنعتوں میں آجروں کی زیادتیوں کو نوٹ کیا گیا ہے تو بعض جگہ ملازمین کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں نے کام کے معیار کو ابتر کردیا ہے۔ یہ تاثر پایا جاتا ہیکہ جہاں 100 ملازم کام کرتے ہیں وہاں صرف 20 ۔ 25 ملازمین ہی حقیقی طور پر دیانتداری سے کام کرتے ہیں۔ اس طرح کے ورکرس قومی اصلاحات کے ایجنڈہ کے تکیہ پر سونے کے عادی نہیں معلوم ہوتے بلکہ وہ ایسے ایجنڈہ مرتب کرتے دکھائی دے رہے ہیں جس سے عوام الناس کو سکھ وچین کا تکیہ فرہم کرسکیں مگر ایک خاص جنون کے ساتھ اس ملک کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ نہ دی جائے تو وقتی اصلاحات کے ذریعہ صحیح معنوں میں عوام کی زندگیوں میں خوشحالی لانے کے خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکیں گے۔ سابق میں وزیراعظم نرسمہا راؤ نے بھی معاشی اصلاحات لانے کا ایجنڈہ تیار کیا تھا مگر بعد کے برسوں میں مرکز میں برسراقتدار حکومتوں نے ملک کی معیشت کو انحطاط پذیری کے بھنور میں ڈھکیل دیا تو مہنگائی آسمان کو چھونے لگی آج سارا ملک جس مہنگائی کی تلوار کے سایہ میں سانس لے رہا ہے اس کے سامنے لیبر اصلاحات سے مزدوروں کو خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ جب فوائد کا مرکز صرف سرمایہ کار ہی ہوں تو لیبر اصلاحات کا مقصد بھی فوت ہوجاتا ہے۔ وزیراعظم کی نظر سرمایہ کاری پر ہے اور لیبر اصلاحات کے ذریعہ وہ سرمایہ کاروں کے احساسات و جذبہ سرمایہ کاری کو دعوت دینا چاہتے ہیں۔ ’’میک ان انڈیا‘‘ پالیسی کو کامیاب بنانے کیلئے لیبر کا سہارا لینا ضروری ہے۔ ان اصلاحات کا خیرمقدم کرنے کے ساتھ یہ خیال رکھنا ضروری ہیکہ اس سے لیبر طبقہ کے مفادات متاثر نہ ہوں۔ کیوں کہ اب تک ہندوستانی تجارتی شعبہ انسپکٹر راج کی وجہ سے ہی ابتری کا شکار ہوا ہے۔ بدقسمتی سے مرکزی وزارت لیبر کی پیش کردہ پالیسیاں پرانی ہی ہیں جن کی لب بندی کی گئی ہے۔ مرکز کی مودی حکومت کو چاہئے کہ اپنی لیبر اصلاحات پالیسی کو کارآمد بنانے کیلئے ریاستوں کو بھی اس میں شامل کرے۔ مودی نے انسپکٹر راج ختم ہونے کا ذکر کیا ہے جبکہ یہ انسپکٹرس سنٹرل لیبر کمشنرس کے تحت اپنے علاقائی دفاتر سے کام کرتے ہیں۔ سنٹرل لیبر کمشنرس تمام مرکزی PSUS اور بڑی بندرگاہوں، معدنیات، کانکنی اداروں اور تیل کے شعبوں، بنکنگ اور انشورنس کمپنیوں کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سمنٹ، پٹرولیم، ٹیلی کام کمپنیوں پر بھی اس کی نظر رہتی ہے مگر ان تمام شعبوں کیلئے صرف 1800 انسپکٹرس کام کرتے ہیں تو سرخ فتہ رشوت کا بازار گرم ہوگا۔ مزدوروں کی بھلائی کا عزم مفقود ہوجائے گا۔
آر ایس ایس کے منصوبے
مرکز میں بی جے پی زیرقیادت حکومت آنے کے بعد آر ایس ایس کے منصوبوں اور مستقبل کے لائحہ عمل کو قطعیت دی جارہی ہے۔ اس میں ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کیلئے حکومت پر دباؤ ڈالنا بھی شامل ہے۔ بی جے پی کے انتخابی منشور میں مندر کی تعمیر کا وعدہ کیا گیا ہے۔ آر ایس ایس اپنے مقصد کیلئے حکمراں پارٹی کو استعمال کرسکتی ہے۔ آئندہ 2019ء تک حکومت کو ایودھیا کیلئے اپنے منصوبہ کو روبہ عمل لانے کیلئے زور دیا جاسکتا ہے۔ ایسے میں ہندوستان کے سکیولر مزاج کو دھکہ پہنچایا جائے گا۔ یہ بات واضح ہیکہ بابری مسجد رام جنم بھومی کا تنازعہ ایک خالصتاً قانونی معاملہ ہے۔ اسے قانونی طریقہ سے حل کیا جائے یا بات چیت کے ذریعہ دونوں فریق مسئلہ کا حل تلاش کریں۔ آر ایس ایس جس طرز سے اپنا رویہ اختیار کررہی ہے اس سے متنازعہ باتیں سامنے آئیں گی۔ رام جنم بھومی کی تحریک کی علمبردار تنظیم وشوا ہندو پریشد نے مسلمانوں پر زور دیا ہیکہ وہ اس متنازعہ اراضی پر اپنا دعویٰ ترک کریں۔ یہی سوال مسلمان اس تنظیم سے کرتے ہیں کیونکہ بابری مسجد کی شہادت کا ریکارڈ موجود ہونے کے بعد کسی بھی تنظیم یا سرکاری سرپرستی میں فیض آباد میں کچھ تعمیری سرگرمیاں شروع ہوئی ہیں تو اس سے ملک کی اقلیت میں بے چینی پیدا ہوگئی۔ رام جنم بھومی تنازعہ کی یکسوئی کیلئے سابق میں ہندوؤں کی معزز شخصیت اچاریہ سوامی جتیندر نے تجویز رکھی تھی کہ اس تنازعہ کو بات چیت کے ذریعہ حل کرلیا جائے۔ وزیراعظم نریندر مودی کی ایماء پر انہوں نے یو پی میں مسلم شخصیتوں سے ملاقات کی۔ بابری مسجد کیس 1949ء سے عدالت میں زیردوران ہے تو دونوں فریق اس مقدمہ کی یکسوئی اور عدالت کے فیصلہ کے پابند ہوں گے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا بھی یہی موقف ہے کہ رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ کا عدالت کے باہر تصفیدہ ممکن نہیں ہے ۔ جب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے تو اس پر غیر ضروری بیان بازی نہیں ہونی چاہئے ۔ مسلمانوں یا مسلم نمائندہ شخصیتوں سے شنکر آچاریہ کی بات چیت سے مستقل میں کسی نتیجہ خیز اقدام کی توقع نہیں کی جاسکتی ۔