وزیراعظم کے تین مسلم ممالک کے دورہ اور عجیب اتفاق!

حیدرآباد۔28مئی (ِسیاست نیوز) حکومتیں اپنے سفارتی تعلقات کے فروغ و استحکام کے لئے صرف سفارتکاروں پر انحصار نہیں کرتی بلکہ با اثر افراد کے ذریعہ بھی سفارتی امور کی انجام دہی کو یقینی بنایا جاتا ہے اور یہ کوئی نئی پالیسی نہیں ہے بلکہ ہر حکومت بالخصوص وزیر آعظم اور وزارت خارجہ کی جانب سے اپنے با اعتماد رفقاء کو ایسے ممالک روانہ کیا جاتا ہے جہاں کا دورہ سربراہ مملکت کی حیثیت سے وزیر آعظم کرنے والے ہوتے ہیں۔ حکومت کے یہ مخفی نمائندے ان ممالک کا دورہ کرتے ہوئے وزارت خارجہ یا وزیر آعظم کے دفتر کو رپورٹ حوالے کرتے ہوئے حالات اور دورے کے دوران امکانات سے واقف کرواتے ہیں۔ اس کے بعد حکومت اس ملک میں سربراہ مملکت کے دورے کے دوران خطاب و بات چیت کو قطعیت دیتی ہے چونکہ سربراہ مملکت کے دورہ میں کئے جانے والے اعلانات پر نہ صرف دو ممالک کی بلکہ دونوں ممالک کے دوست و دشمن ممالک کی نظریں بھی جمی ہوتی ہیں۔ ہندستان میں وزیرآعظم کی حیثیت سے کرسی سنبھالنے کے کے بعد نریندر مودی کے بیرونی دورے خوب چرچہ میں ہیں لیکن ان دوروں کی حکمت عملی مرتب کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اندرون ملک ان دوروں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیںاور مضحکہ اڑاتے ہوئے عوام کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ان دوروں کی مخالف ہیں۔ایسا کرنے والے سیاسی قائدین دراصل قوم کی کمزور یادداشت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان بیانات کے ذریعہ بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملک کے وزیرآعظم کے دورے سے قبل ان ممالک کا دورہ کرنے والے با اعتماد و با اثر افراد کی فہرست میں بعض سیاسی قائدین کے نام بھی شامل ہیں جو اندرون ملک بھارتیہ جنتا پارٹی کے مفادات کی تکمیل میں مصروف ہیں وہی بیرون ملک بالخصوص مسلم ممالک میں مودی سرکار کیلئے سفارتی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں۔

نریندر مودی کے اگسٹ 2015میں ہوئے دبئی کے دو روزہ دورے سے قریب ایک ماہ قبل جنوبی ہند کے ایک مسلم سیاسی قائد نے دبئی کا سہ روزہ دورہ کیا تھا ‘ اسی طرح وزیر آعظم کے دورہء سعودی عرب جو کہ 2016اپریل میں ہوا تھا سے قبل بھی اچانک وہی قائد انتخابی مصروفیات کے باوجود سعودی پہنچ گئے تھے اور اب جبکہ نریندر مودی آئندہ ماہ قطر کا دورہ کرنے والے ہیں تو محترم نے قطر کا دورہ کر لیا ہے۔ ہندستان ہی نہیں بلکہ ہر ترقی یافتہ مملکت اور تیزی سے ترقی پذیر مملکت کے محکمہ خارجہ میں سفارتی عہدیداروں کے علاوہ سیاسی قائدین‘ صحافیوں ‘ با اثر شخصیات بالخصوص ایسے افراد کے ذریعہ سفارتی امور کو طئے کیا جاتاہے جو حکومت کے مفادات کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ ملک میں نریندر مودی کے سب سے زیادہ قریب سمجھے جانے والے با اعتماد رفیق ظفر سریش والا بھی اکثر مسلم ممالک کے دوروں سے قبل یا دوروں میں بحیثیت ماہر تعلیم موجود رہتے ہیں۔ہندستان میں اقلیتوں کی ابتر صورتحال اور مودی کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد احساس عدم تحفظ میں اضافہ ہونے کی رپورٹس کا انکشاف مودی کی شخصیت اور ہندستان کے تشخص کیلئے خطرہ بنا ہوا ہے لیکن اس کے باوجود مسلم ممالک کے دورے میں نریندر مودی کو کوئی شرمندگی یا خوف نہیں ہے

کیونکہ انہیں اپنے ان رفقاء پر مکمل اعتماد ہے جو ان کے دوروں سے قبل ان ممالک کا دورہ کرتے ہوئے نہ صرف حالات کو معمول پر لانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں بلکہ اپنی تجاویز کے ذریعہ حکومت کے اعتماد میں اضافہ بھی کر رہے ہیں۔ مودی کی خدمت میں مصروف سیاسی قائد یو پی اے دور حکومت میں اس قدر مقبولیت حاصل کر چکے تھے کہ خود کو مملکتی وزیر خارجہ کے دعویدار کے طور پر پیش کرنے لگے تھے لیکن ان کی سفارتی صلاحیتوں سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ملک میں ’’ ووٹ کٹوا‘‘ اور بیرون ملک حکومت کے سفیر بننے والے ان قائدین کے یہ دورے اتفاق تو نہیں ہو سکتے چونکہ اتفاق ایک دورے پر کہا جا سکتا ہے لیکن یہاں تو ایسے تین اتفاق موجود ہیں جو کردار کو مشتبہ بنانے کیلئے کافی ہیں۔ ان تین دوروں میں ایک دورے کے تعلق سے یہ دعوی کیا جا سکتا ہے کہ وہ مذہبی نوعیت کا تھا لیکن مابقی دو دوروں کے متعلق ایسا بھی نہیں کہا جا سکتا چونکہ ان ممالک تجارتی تعلق بھی نہیں ہے۔ اگر مودی کے دوروں سے قبل ملک کی شبیہہ کو بہتر بنانے کیلئے یہ دورے کئے جا رہے ہیں اس کاس اندازہ ان سیاستدانوں کے قریبی رفقاء کو بھی نہیں ہے اور نہ ہی وہ ان معاملات پر توجہ مبذول کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دوروں کے ذریعہ مسلم ممالک میں نریندر مودی اپنی شبیہہ بہتر بناتے ہوئے ہندستان میں سرمایہ کاری کروانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور ان کے اس مقصد کو پورا کرنے میں یہاں جو لوگ درپردہ حلیف ہیں وہی مسلم ممالک میں بھی مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔