وزیراعظم کی ذمہ داریاں

عمر بھر ہم یوں ہی غلطی کرتے رہے غالب
دھول چہرے پہ تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے
وزیراعظم کی ذمہ داریاں
وزیراعظم نریندر مودی نے مغربی بنگال میں ایک 71 سالہ نن پر حملہ اور عصمت ریزی کے واقعہ ،کولکتہ میں ہونے والے واقعات ، ہریانہ میں چرچ پر حملہ یا دیگر نفرت پر مبنی بیانات کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے اس طرح کے واقعات کی مذمت کی ہے ۔ وزـیراعظم کی تشویش بظاہر اپنی حکومت پر اُٹھنے والی انگلیوں کا جواب ہے ۔ انھیں اظہارافسوس کے ساتھ اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہونے کے لئے اپنی سرکاری مشنری کو سخت ہدایات دینے کی ضرورت ہے ۔ ملک میں اقلیتوں کے خلاف نفرت پھیلانے والی ہندو تنظیمیں بے لگام ہوگئی ہیں ۔ جب سے مرکز میں بی جے پی کی حکومت آئی ہے ہرکٹر پسند ہندو خودکو اختیار کل سمجھنے لگا ہے ۔ اقلیتوں کو حقیر شہری اور ان کے ازلی دشمن متصور کرکے گمراہ کن پروپگنڈہ کیا جارہا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کو ان واقعات کا سخت نوٹ لے کر خاطیوں کی فوری گرفتاری اور سزا کا بندوبست کرنے کی ضرورت ہے ۔ حقیقت میں چند اظہارخیال کے الفاظ کو منظرعام پر لاکر اپنی ذمہ داری سے پہلوتہی کی جاتی ہے تو یہ ہندوستان کی بدقسمتی کہلائے گی کہ اس پر ایک ایسی نظریاتی طاقت حکومت کررہی ہے جو ہندوستانی قدیم تہذیب سیکولرازم بھائی چارہ ، کثرت میں وحدت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی روایات کو اپنے ہٹ دھرم موقف اور تکبر وغرور میں پیروں تلے روند رہی ہے ۔ وزیراعظم مودی نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا ہے تو انھیں سب سے پہلے اپنے اطراف و اکناف کے ان ٹولوں یا ٹولیوں کو پابند بنانا ہوگا جو اپنی نت نئی سوچ کے ذریعہ ہندوستانی فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑ رہے ہیں۔ ملک کو گجرات کے سابق ہولناک واقعات کی بھٹی کی نذر کرنا چاہتے ہیں۔ ایسی غلطی بی جے پی اور اس کے ذمہ داروں کے لئے بھاری پڑسکتی ہے کیوں کہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے تو اس کے تمام اصولوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے ۔ کولکتہ کے قریب واقع ایک مشنری اسکول پر حملہ اور نن کی عصمت ریزی کے بعد گرجا گھروں پر حملوں کے واقعات افسوسناک ہیں۔ عیسائیوں ، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اپنے نشانہ پر رکھنے والوں کو ہمیشہ عیسائی ادارے ، مسلم مدرسے کھٹکتے رہتے ہیں ۔ مدارس کو دہشت گردی کا اڈہ قرار دے کر ملک بھر میں مسلمانوں کو دیگر ابنائے وطن کی نظروں میں مشکوک بناتے آرہے ہیں تو عیسائی مشنریز پر یہ الزامات تھوپے جارہے ہیں کہ یہ گروپ تبدیلی مذہب کے ذریعہ ہندوستان میں فحاشی کو فروغ دے ر ہے ہیں ۔ عیسائیوں کے اداروں ، گرجا گھروں کی خدمت کرنے والی ننوں پر تہمات لگائی جاتی ہے کہ یہ لوگ نوجوان ہندو لڑکیوں کو بھلا پھسلاکر عیسائی بنایا جاتا ہے پھر انھیں اپنے سفید پوش پادریوں اور بشپس کی جنسی ہوس پورے کرنے کی خدمت پر مامور کیا جاتا ہے ۔ ان کے فائیو اسٹار مشنریز کے اندر خوبصورت پہاڑی والے تفریح گاہیں ہوتی ہیں۔ یسوع مسیح کے نام پر ویٹکن کیلئے فحاشی کے اڈے چلاتے ہیں۔ اگر ان گرجا گھروں میں کام کرنے والی ننوں کی عصمت کے بارے میں پوچھا جائے تو ان کی خفیہ جنسی سرگرمیوں کا پتہ چلے گا ۔ عیسائیوں کی سرگرمیوں پر شک و شبہ کرنے والوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہندوستان میں انسانوں کی خدمت کے نام پر ان مشنریز نے 1000 ہیکٹرس پر خوبصورت ہندوستانی اراضیات پر قبضہ کر رکھا ہے اور خیراتی اداروں کے نام پر کئی بلین ڈالرس رقم جمع کرلی ہے ۔ ان مشنریزنے ہندوستان میں 20 ملین ہندوؤں کو مذہب عیسائیت میں شامل کیا ہے ۔ اس طرح کے الزامات کے دریعہ یہ لوگ ہندوستانی عوام کے ذہنوں کو منتشر کررہے ہیں۔ مسلم اداروں کے تعلق سے بھی ان کے الزامات بے بنیاد ہوتے ہیں پھر بھی میڈیا ان کے ہاتھ میں ہے تو یہ لوگ اپنی من مانی اور جھوٹ کو پورے صفائی کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہندوستانی نوخیز ذہنوں میں نفرت پیدا کررہے ہیں ۔ کیا وزیراعظم نریندر مودی کو اس خفیہ سازش کا علم نہیں ہے ان کی محاذی تنظیموں کی خفیہ سرگرمیوں اور واحد نکاتی ایجنڈہ اقلیتوں کو نقصان پہونچانے کے بارے میں علم نہیں رکھتے اگر وزیراعظم معصومیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ انھیں اس کا کوئی علم نہیں ہے تو پھر انھوں نے جن واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے اس واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انھیں اپنی غیرجانبدارانہ حکمرانی کا ثبوت دینا ہوگا ۔ وزیراعظم کی حیثیت سے انھوں نے ہندوستان کے دستور کا حلف لیا ہے تو اس ملک کی تہذیب ، ثقافت ، کلچر ، روایات ، تقدس سیکولرازم جمہوریت الغرض امن و امان کے تمام اصولوں کو سختی سے روبہ عمل لانا ہوگا ۔ جب خاطی کو سزا دی جاتی ہے تو جرم کا سدباب کرنے میں مدد ملتی ہے لیکن جب خاطیوں کو جرم کے بعد سرپرستی ملنے لگے تو جرائم کا گراف بلند ہوتا جائے گا پھر ہندوستان ایک جنگل راج میں تبدیل ہوگا۔