وزیراعظم کا دورہ کارگل

عیبوں سے ہے جب بھرا، سر تا پا خود سنگ
کرتا ہے پھر کس طرح، شیشے کی توہین
وزیراعظم کا دورہ کارگل
عوام کے ووٹ لے کر اقتدار حاصل کرنے والے سیاستداں عوام کی تجاویز نہیں سنتے۔ عوام چیخ رہے ہیں اور اپنا مطالبہ شدت سے پیش کررہے ہیں کہ ملک کی صورتحال کو بگڑنے سے بچایا جائے مگر نئی حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے باوجود وزیراعظم نریندر مودی نے پڑوسی ملک پاکستان کو اول تو دوستی کا ہاتھ بڑھایا اب کارگل کا دورہ کرتے ہوئے اس ملک پر الزام عائد کرنے لگے کہ وہ خفیہ جنگ کررہا ہے۔ سابق میں این ڈی اے حکومت کے دوران 1999ء میں کارگل واقعہ پیش آیا تھا۔ اس وقت اور بعد میں وزیرداخلہ کی حیثیت سے ایل کے اڈوانی نے ہر معاملہ میں پاکستان پر انگلی اٹھانے کو عادت بنا لی تھی۔ جب دونوں ملکوں کے درمیان کئی مسائل ہیں۔ پاکستان خود اندرونی طور پر دہشت گردی کا شکار ہے۔ معاشی حالت ابتر ہے ۔ وہاں کبھی جمہوری و کبھی فوجی حکومت نے عوام کو شدید مسائل سے دوچار کردیا ہے تو اس بارے میں ہندوستان کی قیادت کی منفی سوچ سے کچھ بہتری ہونے والی نہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اس لئے دورہ جموں و کشمیر خاص کر لداخ کے علاقہ لیہہ اور کارگل کا دورہ کرتے ہوئے طعنہ دیا ہے کہ پاکستان اب روایتی جنگ لڑنے کی طاقت نہیں رکھتا اس لئے وہ خفیہ جنگ یعنی دہشت گردی کے ذریعہ اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھا ہے۔ پاکستان کے خلاف نریندر مودی کا نظریہ نیا نہیں ہے مگر اب وہ ملک کے ذمہ دار وزیراعظم ہیں۔ بلاشبہ دہشت گردی ایک خطرناک کارروائی ہے۔ اس سے بے قصور جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ یہ جنگ سے بھی زیادہ نقصانات پہنچاتی ہے۔ دہشت گردی کو کچلنے کیلئے آج ساری دنیا کی بڑی طاقتیں کوشاں ہیں۔ امریکہ کی کوششوں کے بعد وہاں پر اب تک کوئی دہشت گردانہ واقعہ پیش نہیں آیا لیکن برصغیر میں دہشت گردی کا جاری رہنا حکومتوں کی ناہلی اور فوجی سیکوریٹی فورسیس کی کوتاہی سمجھا جاسکتا ہے۔ نریندر مودی نے ہندوستان کی دفاعی طاقت کو خودمکتفی بنانے کی بات کہی ہے جبکہ ان کی حکومت ڈیفنس کے شعبہ میں بیرونی راست سرمایہ کاری کی حد کو بڑھانے کا فیصلہ کرکے اس اہم اور دیسی ساختہ ہتھیاروں کی تیاری پر بیرونی کنٹرول کی چھوٹ دے کر کوئی مثبت قدم نہیں اٹھایا ہے تو اس کے منفی نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ وزیراعظم نریندر مودی کا موقف اس وقت اس سطح پر پہنچایا گیا ہے کہ وہ کسی کی بات سننے تیار نہیں بلکہ ان کی ہر خرابی کو اچھی بات سمجھنے والے ان کے حامی یہ تسلیم نہیں کریں گے کہ ان کی خرابیاں اور غلطیاں کتنی سنگین ہیں۔ چاہے گجرات فسادات ہوں یا اپنی اہلیہ سے دوری اختیار کرنے کا مسئلہ ہو یا ایک خاتون کی جاسوسی کرنے کیلئے پوری سرکاری مشنری کو استعمال کرنے کا الزام ہو ان کے اور ان کے حامیوں کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کے خلاف جو کچھ بھی کہنے اور لکھنے کی کوشش کی جائے ان کی دفاع کیلئے حامیوں کی فوج کھڑی نظر آئے گی۔ اب ان کے حامیوں میں اس بات کی برہمی پائی جاتی ہیکہ انہوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پڑوسی ملک پاکستان کو سبق سکھانے والی کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس طرح پڑوسی ملک کے بارے میں اشتعال انگیزی کیا مناسب ہوسکے گی یہ مودی کے حامیوں کو علم نہیں ہے۔ مودی کے حامیوں کو اس بات کی بھی پرواہ نہیں ہیکہ انہوں نے اقتدار پر آنے کے 3 ماہ بعد بھی قوم کیلئے کچھ ٹھوس فیصلے نہیں کئے ہیں۔ انہوں نے اب تک اپنا قیمتی وقت سرحدی ملکوں کوہی دیا ہے۔ بھوٹان، نیپال اور چین کی سرحدوں کے لئے ان کے پاس کافی وقت موجود ہے۔ ملک کے اندر مسائل کے انبار کو صاف کرنے کی انہیں توفیق نہیں ہورہی ہے۔ مودی کے مضبوط دور کے آغاز کی تمنا رکھنے والوں کو بہت جلد مایوسی ہوگی کہ وہ بھی سابق کی یو پی اے حکومت کی طرح بلکہ اس سے زیادہ ابتر حکمرانی کے مرتکب ہوں گے بلکہ مودی حکومت کو یو پی اے حکومت کا چربہ اور مرحلہ سوم بھی کہا جارہا ہے اگر عوام کے صبر کا پیمانہ دھیرے دھیرے لبریز ہوجائے تو بلاشبہ اقتدار کو دھکہ پہنچنے کیلئے وقت لگے گا۔ مودی نے اپنے گول مول مکالموں سے عوام کا دل جیت کر اقتدار حاصل کیا ہے۔ وہ اصل میں ایک کارکرد رہنما ہونے کا ثبوت دینے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ عوام چونکہ بے بس ہوتے ہیں ان کی بے بسی سے نکلنے والی ناراضگی کا زیادہ اثر نہیں ہوتا مگر دیر سے ہی سہی اس کے اثرات نمودار ہوں گے۔ یہ ہر کوئی جانتا ہیکہ جموں و کشمیر کے عوام خاص کر لداخ، کارگل اور لیہہ کے باشندے حب الوطن ہیں۔ مودی ان کے درمیان پہنچ کر پاکستان کے خلاف الزامات لگا رہے ہیں تو اس سے دو پڑوسی ملکوں کے درمیان امن کی راہ کو وسعت دینے میں مدد نہیں ملے گی۔ مودی نے دیگر پڑوسی ملکوں کے لئے اپنا رویہ دوستانہ ہونے کا مظاہرہ کیا ہے اور پاکستان کے تعلق سے بھی وہ کل تک دوستی کا جذبہ رکھتے تھے اب ان کے لب و لہجہ میں تبدیلی اچھی علامت نہیں ہے۔ سرحدوں کی حفاظت کرنے والی فوج کے حوصلے بڑھانے کیلئے کسی بھی قسم کی غلط بیانی سے حالات کی سنگینی کو دور نہیں کیا جاسکتا۔