پھر ترے کوچہ کو جاتا تھا خیال
دلِ گم گشتہ مگر یاد آیا
وزیراعظم کا دورۂ نیپال
وزیراعظم نریندر مودی نے نیپال کی پارلیمنٹ سے خطاب میں سارک ملکوں پر زور دیا کہ غربت کے خاتمہ کیلئے مؤثر پروگرام تیار کریں۔ مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی رشوت سے پاک نظم و نسق فراہم کرنے کے وعدوں کے ساتھ رشوت سے پاک سرکاری کام کاج انجام دینے کا عزم ظاہر کیا تھا لیکن حکومت سازی کے عمل سے لیکر حکمرانی کے تمام امور کی انجام دہی میں تمام وزراء اور قائدین کی رشوت ستانی کا کوئی پتہ نہیں چلایا جاتا ہے۔ سارک ملکوں میں غربت کی سطح زیادہ ہے۔ نیپال بھی ان میں سے ایک ملک ہے جس کی سرحدیں ہندوستان کی سیکوریٹی کے لئے نہایت ہی حساس سمجھی جاتی ہیں۔ وزیراعظم مودی نے نیپال کا دورہ کرتے ہوئے دونوں ملکوں کی دیرینہ دوستی میں مزید استحکام کی جانب قدم اٹھایا ہے۔ سارک ملکوں میں سے ایک ملک نیپال کو مودی نے زیادہ اہمیت دی ہے تو یہ ان کے ترجیح قدم کا ایک حصہ ہے۔ انہوں نے نیپال کو ایک بلین ڈالر کے رعایتی قرض کا اعلان کیا۔ 10 ہزار کروڑ روپئے کی رقم معمولی تو نہیں ہے لیکن یہ رقم سابق میں فراہم کردہ مالی اعانت سے ہٹ کر دی جارہی ہے تو اس کے دونوں ملکوں کو حاصل ہونے والے فوائد بھی عوام تک پہنچنے چاہئے۔ ہندوستان کی اس نئی گرانٹ کو انفراسٹرکچر کو فروغ دینے اور توانائی پراجکٹس کے لئے خرچ کی جائے گی۔ یو پی اے کے دو مرحلوں کی حکمرانی کے دوران نیپال سے سیاسی تعلقات خوشگوار نہیں تھے مگر مودی حکومت نے اس ہمالیائی ملک سے اپنے رشتوں کو مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے ۔ مودی کی اس ملک سے دلچسپی کے نتائج آئندہ کیا گل کھلائیں گے یہ آگے چل کر معلوم ہوگا۔ نیپال کی سرحدیں ہندوستان اور چین کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہیں تو اس میں ہندوستانی سیکوریٹی کو چوکسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے جیسا کہ مودی نے نیپال کی پارلیمنٹ سے خطاب کے دوران سرحدوں کو رکاوٹوں کے طور پر استعمال کرنے کے بجائے انہیں دو ملکوں کے درمیان پل ہٹانے کی ترغیب دی ہے تو یہی بات پاکستان سے متصل سرحدوں کے لئے بھی صادق آ سکتی ہے مگر ضرورت اس جذبہ کی ہے جس طرح نیپال کی پارلیمنٹ اور وہاں کے قائدین سے ملاقات کے دوران ظاہر کیا گیا ہے۔ سارک ملکوں میں پاکستان بھی شامل ہے۔ بنگلہ دیش،سری لنکا بھی اہم ملک ہیں۔ نریندر مودی نے سارک سٹیلائیٹ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے تاکہ اس سے سارک اقوام میں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں تعاون حاصل ہوسکے۔ ماضی سے ان سیاستدانوں نے کیا سبق حاصل کیا ہے اس سے مودی واقف نہیں ہوں گے وہ ابھی نئے ہیں تو سارک ملکوں میں غربت کے خاتمہ کیلئے ان کے جذبہ کو ہر سارک ملک قدر کرتا ہے تو غریبی کی سطح کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔ خطہ کے عوام کے مفادات کے تحفظ کرنے والے منصوبے بنائے جاتے ہیں اور اس سمت میں قدم اٹھتے ہیں تو بلاشبہ اس کی ہر گوشے سے ستائش کی جائے گی۔ اس وقت نریندر مودی غربت کے تعلق سے عوامی مفادات کی بات کررہے ہیں۔ ماضی سے حاصل ہونے والا دوسرا سبق ہے ۔ نریندر مودی نے وزیراعظم نیپال شیل کوپرالا سے ملاقات کے دوران 3 معاہدوں پر دستخط کئے ہیں۔ خاص کر 69 ملین کی گرانٹ کے ساتھ آئیوڈین والے نمک کی سربراہی کا معاہدہ بھی شامل ہے۔ یہ ملک آئیوڈین کی کمی سے لاحق امراض پر قابو پانے میں معاون ہوتا ہے۔ نریندرمودی نے وزارت عظمیٰ کی کرسی سنبھالتے ہی اپنے پہلے دو بیرونی دوروں کے انتخاب میں بھوٹان اور نیپال کو ترجیح دی ہے تو اس کے کچھ مذہبی جذبات بھی وابستہ ہیں۔ آر ایس ایس نظریہ کو فروغ دینے کے حصہ کے طور پر سرکاری دورے کو ذاتی جذبات سے مربوط کردیا گیا ہے۔ اس سال نیپال میں سارک چوٹی کانفرنس میں منعقد ہونے والی ہے جس میں تمام سارک ملکوں کے سربراہ شرکت کریں گے۔ ان ملکوں کو رشوت اور غربت کے مسائل پر غوروخوض کرنا ہے۔ کسی بھی عوامی خدمت کا تسلسل اس وقت ایک سیاسی مقصد کے اردگرد گھومتا ہے تو اس میں کامیابی کی توقع کم ہوتی ہے۔ ہندوستان نے نیپال کے ساتھ 43000 میگاواٹ ہائیڈرو پاور پر بات چیت کرکے برقی بحران کو دور کرنے کی کوشش کرنا ہے تو دونوں ملکوں میں برقی تقسیم کا مسئلہ حل ہوگا۔ اس وقت برصغیر میں برقی کا مسئلہ بھی نازک بنا ہوا ہے۔ سارک ملکوں میں بھوٹان بھی برقی پیداوار کیلئے اہم ملک ہے۔ اس لئے مودی نے بھوٹان کے 10 ہزار میگاواٹ ہائیڈرو پاور پر توجہ دی ہے۔ اگر سارک ملک مل کر خطہ میں برقی بحران پر قابو پانے کی جانب قدم اٹھاتے ہیں تو 2020 تک ان ملکوں میں 50,000 میگاوات ہائیڈرو پاور کی پیداوار کو یقینی بناسکتے ہیں۔نیپال کو ہندوستان کی دوستی اور نریندر مودی کی یاری سے نجارت، سرمایہ کاری، ہائیڈرو پاور، زراعت، اگروپروسسنگ ماحولیات جیسے اہم موضوعات میں باہمی تعاون حاصل ہوتا ہے تو عوام کو بھی فوائد وراحت ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔